تازہ ترین

Monday, March 23, 2020

نظم مفلسی مع تشریح ||نظیر اکبر آبادی

نظم مفلسی

مفلسی


1- جب آدمی کے حل     پر آتی    ہے مفلسی 

       کس کس طرح سے اس کو ستاتی  مفلسی  

    پیاسا    تمام   روز     بٹھاتی   ہے     مفلسی

   بھوکا     تمام        رات  سلاتی   ہے   مفلسی

   یہ دکھ وہ جانے جس پہ کہ آتی ہے    مفلسی

تشریح :- اس بند میں نظیر اکبر آبادی فرماتے ہیں کہ  جب  انسان کو غریبی آتی ہے تو انسان کو طرح  طرح کے مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔غریبی انسان کو پیا سا بٹھاتی ہے اور بھوک کا درد نا ک عذاب دیتی ہے،شب و روز بھوک اور پیاس میں گزارنے پڑتے ہیں  مگر اس درد کا اندازہ اسی کو ہوگا  جس نے مفلسی دیکھی ہوگی۔

مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے آن پر

        دیتا ہے وہ اپنی جان ایک ایک نان پر 

ہر آن ٹوٹ پڑتا ہے روٹی کے خوان پر

        جس طرح کتے ٹوٹتے ہیں استخوان پر 

         ویسیا ہی مفلسوں کو لڑاتی ہے مفلسی

تشریح :- اس بند میں نظیر اکبر آبادی فرماتے ہیں کہ   غریب  کو رزق کی تلاش میں اپنی عزت کا کچھ خیال نہیں رہتا ۔ اور مفلس روزی روٹی حاصل کرنے کے لئے کھٹن کام کرنے سے بھی نہیں کتراتا  ،گویا کہ ٹوٹ پڑتا ہے رزق پر ۔مفلسی غریبوں  کو اس طرح لڑاتی ہے جس طرح کتے ہڈی پر لڑ پڑتے ہیں ۔

کیسا ہی آدمی ہو پر افلاس کے طفیل 

        کوئی گدھا کہے اسے ٹہرادے کوئی بیل

کپڑے پھٹے تمام بڑے بال پھیل پھیل

        منہ خشک دانت زرد بدن پر جما ہے میل 

سب شکل قیدوں کی بناتی ہے مفلسی

تشریح :- اس بند میں نظیر اکبر آبادی فرماتے ہیں کہ  مفلس انسان کتنا ہی ایماندار کیوں نہ ہو لیکن مفلسی کی وجہ سے اس کا کوئی اعتبار نہیں کرتامفلسی انسان کا وقار ختم کرتی ہے اور لوگ اس سے حقیر سمجھتے ہیں اسلئے طرح طرح کے بُرے القاب  دیتے ہیں کوئی اس سے گدھا کہتا ہے اور کوئی بیل ۔غریبی انسان کی   حالت قیدیوں جیسی بناتی ہیں غریب کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں ، بال پریشان ،منھ پیاس کی شدت سے خشک اور دانت میل سے بھرے ہوئےہوتے ہیں ۔ 

4 دنیا مین لے کے شاد سے اے یارو تا فقیر

خلق نہ مفلسی میں کسی کو کر اسیر 

اشرف کو بناتی ہے اک آن میں فقیر 

کیا کیا میں مفلسی کی خرابی کہوں نظیر 

وہ جانے جس کے دل کو جلاتی ہے مفلسی 

تشریح :- اس بند میں نظیر اکبر آبادی اللہ سے دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ  اللہ کسی کو مفلسی کے عذاب میں قید نہ کرے ۔مفلسی ایسا عذاب ہے جو بادشاہ اور امیر کو اک لمحے میں فقیر بنا سکتی ہیں ،نظیر کہتے ہیں کہ مفلسی کی  بہت ساری خرابیاں ہیں میں ان میں سے کس کس کا زکر کروں ۔ مفلسی کا درد وہی جانتا ہے جس کے دل کو مفلسی نے   متاثر کیا ہو

   
نظم مفلسی (نظیر اکبر آبادی) خلاصہ

خلاصہ:- نظیر اکبر آبادی اس نطم میں مفلسی کی خرابیاں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب  انسان کو غریبی آتی ہے تو انسان کو طرح  طرح کے مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔غریبی انسان کو پیا سا بٹھاتی ہے اور بھوک کا درد نا ک عذاب دیتی ہے،شب و روز بھوک اور پیاس میں گزارنے پڑتے ہیں  مگر اس درد کا اندازہ اسی کو ہوگا  جس نے مفلسی دیکھی ہو۔غریب  کو رزق کی تلاش میں اپنی عزت کا کچھ خیال نہیں رہتا ۔وہ روزی روٹی حاصل کرنے کے لئے کھٹن کام کرنے سے بھی نہیں کتراتا  ،گویا کہ ٹوٹ پڑتا ہے رزق پر ۔مفلسی غریبوں  کو اس طرح لڑاتی ہے جس طرح کتے ہڈی پر لڑ پڑتے ہیں ۔


مفلس انسان کتنا ہی ایماندار کیوں نہ ہو لیکن مفلسی کی وجہ سے اس کا کوئی اعتبار نہیں کرتامفلسی انسان کا وقار ختم کرتی ہے اور لوگ اس سے حقیر سمجھتے ہیں اور طرح طرح کے بُرے القاب  دیتے ہیں کوئی اس سے گدھا کہتا ہے اور کوئی بیل ۔غریبی انسان کی   حالت قیدیوں جیسی بناتی ہیں غریب کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں ، بال پریشان ،منھ پیاس کی شدت سے خشک اور دانت میل سے بھرے ہوئےہوتے ہیں ۔نظم کے آخر ی بند میں  شاعر اللہ دعا گو ہے کہ  اللہ کسی کو مفلسی کے عذاب میں قید نہ کرے ۔مفلسی ایسا عذاب ہے جو بادشاہ اور امیر کو ایک لمحے میں فقیر بنا سکتی ہیں ،نظیر کہتے ہیں کہ مفلسی کی  بہت ساری خرابیاں ہیں میں ان میں سے کس کس کا زکر کروں ۔ مفلسی کا درد  وہی جانتا ہے جس کے دل کو مفلسی نے   متاثر کیا ہو۔

No comments:

Post a Comment