نظم مفلسی (نظیر اکبر آبادی) خلاصہ
خلاصہ:- نظیر اکبر آبادی اس نطم میں مفلسی کی خرابیاں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب انسان کو غریبی آتی ہے تو انسان کو طرح طرح کے مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔غریبی انسان کو پیا سا بٹھاتی ہے اور بھوک کا درد نا ک عذاب دیتی ہے،شب و روز بھوک اور پیاس میں گزارنے پڑتے ہیں مگر اس درد کا اندازہ اسی کو ہوگا جس نے مفلسی دیکھی ہو۔غریب کو رزق کی تلاش میں اپنی عزت کا کچھ خیال نہیں رہتا ۔وہ روزی روٹی حاصل کرنے کے لئے کھٹن کام کرنے سے بھی نہیں کتراتا ،گویا کہ ٹوٹ پڑتا ہے رزق پر ۔مفلسی غریبوں کو اس طرح لڑاتی ہے جس طرح کتے ہڈی پر لڑ پڑتے ہیں ۔
مفلس انسان کتنا ہی ایماندار کیوں نہ ہو لیکن مفلسی کی وجہ سے اس کا کوئی اعتبار نہیں کرتامفلسی انسان کا وقار ختم کرتی ہے اور لوگ اس سے حقیر سمجھتے ہیں اور طرح طرح کے بُرے القاب دیتے ہیں کوئی اس سے گدھا کہتا ہے اور کوئی بیل ۔غریبی انسان کی حالت قیدیوں جیسی بناتی ہیں غریب کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں ، بال پریشان ،منھ پیاس کی شدت سے خشک اور دانت میل سے بھرے ہوئےہوتے ہیں ۔نظم کے آخر ی بند میں شاعر اللہ دعا گو ہے کہ اللہ کسی کو مفلسی کے عذاب میں قید نہ کرے ۔مفلسی ایسا عذاب ہے جو بادشاہ اور امیر کو ایک لمحے میں فقیر بنا سکتی ہیں ،نظیر کہتے ہیں کہ مفلسی کی بہت ساری خرابیاں ہیں میں ان میں سے کس کس کا زکر کروں ۔ مفلسی کا درد وہی جانتا ہے جس کے دل کو مفلسی نے متاثر کیا ہو۔
No comments:
Post a Comment