• (ضربِ کلیم: علامہ محمد اقبالؔ)
• خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللہ
• خودی ہے تیغِ فساں لا الہ الا اللہ
• یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
• صنم کدہ ہے جہاں، لا الہ الا اللہ
• کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا
• فریبِ سود و زیاں، لا الہ الا اللہ
• یہ مال و دولتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند
• بتانِ وہم و گماں، لا الہ الا اللہ
• خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری
• نہ ہے زماں ، نہ مکاں لا الہ الا اللہ
• یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
• بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الا اللہ
• اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
• مجھے ہے حکمِ اذاں،لا الہ الا اللہ
• خودی سے مراد اپنے آپ کی پہچان ہے۔ سرِ نہاں سے مراد چھپا ہوا راز، تیغِ فساں کا مطلب تلوار کی دھار تیز کرنے والا آلہ۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ اپنی ذات کا بھید کلمہ توحید میں چھپا ہوا ہے۔ خودی کو اگر آپ تلوار کہہ لیں تو لا الہ الا اللہ اس تلوار کو تیز کرنے والی سان ہے جس پر اس تلوار کو تیز کیا جاتا ہے۔ یعنی خالص توحید کے بغیر خودی کی تلوار کام نہیں آ سکتی۔
• صنم کدہ سے مراد بت خانہ ہے۔ یہ دنیا ایک بت خانہ ہے اور اس دور کے نمرود توحید کو چھوڑ کر بت پرستی کی جانب مائل ہو چکے ہیں۔ بت پرستی صرف پتھر کے بتوں کو پوجنا نہیں بلکہ اپنے دل میں غیر اللہ کا خوف رکھنا بھی بت پرستی ہی تصور ہو گی سو علامہ محمد اقبال ایک مرتبہ پھر حضرت ابراہیمؑ کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ اس بت پرستی کو لا الہ الا اللہ کا نعرہ ہی ختم کر سکتا ہے اور یہ نعرہ لگانے کےلئے اس دور کو بھی ابراہیمؑ جیسے مردِ حق کی تلاش ہے کہ وہ آئے اور اس جہان کو جو بت کدہ بن چکا ہے آ کر توحید سے خالص کر دے۔
متاع کا مطلب دولت ہے۔۔۔ اقبالؔ کہہ رہے ہیں کہ اے مسلمان! تو نے اپنا دل اس دنیا میں لگا لیا ہے، تجھے تو توحید کا علمبردار ہوتا چاہیئے تھا اور دنیا کی دولت کو قدموں کی ٹھوکر پہ رکھنا چاہیئے۔ لیکن تو نے وہ سودا کر لیا ہے جس میں صرف خسارہ اور دھوکہ ہے۔ تو نفع و نقصان کے الجھاؤ میں پھنس گیا ہے۔ اس چکر سے باہر آؤ اور لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگاؤ۔ کیونکہ اس فریب اور دھوکے سے نکلنے کےلئے لا الہ الا اللہ کی ضرب ہی کام آئے گی۔
• اے مسلمان! دنیا کا مال اور دولت، عزیز و اقارب اور دنیاوی تعلقات سب وہم و گمان کے بتوں کے طرح ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ مستقل حقیقت صرف لا الہ الا اللہ کی ہے سو ان دوستیوں اور رشتوں کو توحید کی راہ میں زنجیر نہ بننے دینا۔
• خرد کا مطلب عقل ہے جبکہ زناری سے مراد برہمنوں کا مخصوص دھاگہ ہے مراد کافر ہو جانا۔ اقبال کہتے ہیں کہ انسانی عقل نے تو زمان و مکان یعنی دنیا کے لوازمات کا زنار پہن رکھا ہے اور اسی کی پجاری ہو کر رہ گئی ہے اسی لیئے غیر اسلامی کام کر رہی ہے۔ حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ زمان و مکان عارضی ہیں، ایک روز اس سب کو فنا ہو جانا ہے۔ اس زمان کی کوئی اصل ہے نہ کوئی حقیقت ہے۔ اصل حیات تو آخرت کی ہے لہٰذا اصل کی کامیابی صرف اور صرف کلمہُ توحید یعنی لا الہ الا اللہ میں ہے۔
نغمے یوں تو موسمِ گل میں گائے جاتے ہیں مگر توحید کا نغمہ موسموں کی قید نہیں رکھتا۔ لا الہ الا اللہ کا نغمہ وہ نغمہ ہے کہ جو گلاب اور لالے کے موسم کا پابند نہیں ہے۔ بہار اور خزاں اس کےلئے یکساں ہیں۔ بہار سے مراد خوشحالی جبکہ خزاں سے مراد پستی اور زوال کا موسم ہے۔ یعنی مسلمان قوم پہ کوئی بھی موسم ہو بھلے وہ عظمت کا مقام حاصل کر چکی ہو یا پستیوں میں گر چکی ہو دونوں صورتوں میں توحید کی اشاعت اور نعرہُ لا الہ الا اللہ سے اپنے دامن کو خالی نہیں کرنا چاہئے کہ ہر دو صورتوں میں یہی سہارا اور یہی علاج ہے۔
• جماعت سے مراد مسلمان قوم ہے۔۔۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ اگرچہ قوم کے افراد نے اپنی آستینوں میں بت چھپا رکھے ہیں یعنی توحید کی راہ کو ترک کر کے غیر اللہ کی طرف مائل ہو چکے ہیں اور دنیاوی نفع و نقصان کو اہمیت دینے لگے ہیں۔ لیکن مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لا الہ الا اللہ کی ضربوں سے ان تمام بتوں کو پاش پاش کر دوں۔ مجھ میں اللہ نے یہ صلاحیت رکھ دی ہے کہ قوم کے سامنے توحید کے نعرے لگا کر انکو فلاح کا راستہ بتاتا رہوں۔
Sunday, September 2, 2018
Allama iqbal (خودی کا سر ہے نہاں ۔۔۔۔ تشریح)
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
Subhan Allah
ReplyDelete