تازہ ترین

Friday, December 20, 2024

خواجہ غلام السدین کی حالات زندگی اور ادبی خدمات

خواجہ غلام السیدین


خواجہ غلام السیدین 16 اکتوبر 1904 کو پانی پت میں پیدا ہوئے آپکے والد کا نام غلام ثقلین تھا اور والد و کا نام فاطمہ تھا آپ کا تعلق خواجہ الطاف حسین حالی کے خاندان سے تھا۔ خواجہ کو 11 برس تک اپنے والد کی تربیت اور نو برس کی عمر تک حالی کی ہدایت نصیب ہوئی۔ انہوں نے میٹرک تک حالی ہائی سکول پانی پت سے تعلیم پائی، میٹرک پاس کرنے کے بعد علی گڑھ کالج میں داخلہ لیا۔ وہاں انہوں نے ایف اے اور بی۔ اے کے امتحانات فرسٹ دیویژن میں اور یونیورسٹی میں اول رہ کر پاس گئے۔ اس کے بعد خواجہ مزید تعلیم کے لئے حکومت ہند کے وظیفے پر انگلستان چلے گئے ، جہاں انہوں نے امتیازی نمبرات کے ساتھ ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔ انگلستان سے واپس آنے کے بعد انکو علی گڑھ کے انگلش اسکول کا سر براہ مقرر کیا گیا، پھر ٹیچرس ٹرینگ کالج کے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اسکے بعد ممبئی اور امپور کے مشیر تعلیم کے خدمات انجام دیے ۔۔ بعد ازاں گیارہ برس تک حکومت ہند کے وزارت تعلیمات کے جوائینٹ سیکریٹری اور پھر سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہے۔ اسکے علاوہ آپ نے سات سال تک کشمیر میں ناظم تعلیمات کے فرائض انجام دئے اور امریکہ میں مشیر اور پروفیسر کے منصب پر بھی خدمات انجام دیے ہیں۔ آخر 19 دسمبر 1971ء کو دن کے تین بجے دل کا دورہ پڑ جانے کی وجہ سے جواجہ غلام السیدین 67 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ 20 دسمبر 1971ء کی صبح کو نماز جنازہ ہوئی اور دن کے کے بارہ بجے جامعہ نگر ( اوکھلا ) کے قبرستان میں سوگواروں پر ستاروں اور عقیدت مندوں کے جم غفیر کی موجودگی میں دفن کئے گئے۔


ادبی خدمات: خواجہ غلام السیدین کا شمار ہندوستان کے ان ماہر تعلیم اور ادیبوں میں ہوتا ہے جنکو بین الا قوامی شہرت ہوئی ۔ خواجہ کو دنیا ایک ماہر تعلیم اور پر وقار ادیب کی حیثیت سے جانتی ہے۔ غلام السیدین ایک ایسے ادیب تھے جن کو تقریر اور تحریر دونوں پر قدرت حاصل تھی۔ انکی تحریر میں زیادہ تر انگریزی زبان میں ہیں جو کافی مقبول ہیں۔ خواجہ بیک وقت ادیب بھی ، مقرر بھی، معلم بھی، اور مفکر بھی تھے انکے مطالعہ کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ تاریخ، سائنس، نفسیات تہذیب و تمدن ، تقابلی مطالعہ مذاہب، اخلاقیات، عمرانیات ، مصوری، اور موسیقی و غیر ہ سمجھی علوم وفنون سے دلچسپی تھی ، جس کا مظاہرہ انکی تحریروں سے بھی ہوتا ہے۔ انگریزی ادب کی طرح انہوں نے اردو ادب میں بھی کچھ یادگار تصانیف تحریر فرمائیں ہیں جن میں روح تہذیب " " آندھی میں چراغ " " قومی سیرت کی تشکیل " اور "اصول تعلیم " خاص طور پر قابل ذکر ہیں " آندھی میں چراغ " انکی وہ تصنیف ہیں جس میں غلام السیدین کے بنیادی تصورات ، جس انسانی مروت سے منسلک ہے صاف نظر آ رہے ہیں۔

No comments:

Post a Comment