Urdu Poetry For Anchoring |
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
میں قرآن پڑھ چکا تو اپنی صورت ہی نہ پہچانی
میرے ایمان کی ضد ہے مرا طرز مسلمانی
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں محمدؐ سے اجالا کردے
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا.
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں کہ میری انتہا کیا ہے.
انداز بیاں گر چہ بہت شوق نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں مری بات
منزل سے آگے بڑھ کر تقدیر تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
اُن کی تدریس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
خدا تجھے کسی طو فاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تُو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں!
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
دیتے ہیں ازاں دونوں اسی ایک جہاں میں
ملاں کی ازاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
هر شیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی چوٹ سے
پتھر ہی ٹوٹ جائے وہ شیشہ تلاش کر
سجدوں سے تیرے کیا ھوا صدیاں گزر گئیں
دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر .
نس نس سے واقف ہے رگ رگ جانتا ہے”
“مجھے خود سے زیادہ میرا رب جانتا ہے
میرے اللہ تیری ادائے “کن” بڑی بے مثال ہے
تیری صدائے “فیکون” بھی بڑی لاجواب ہے
کون کہتا ہے کہ خدا نظر نہیں آتا
وہی تو نظر آتا ہے جب کوئی نظر نہیں آتا
No comments:
Post a Comment