تازہ ترین

Tuesday, October 17, 2023

نظم "ابلیس کی عرض داشت “ اور اس کی تشریح

 نظم "ابلیس کی عرض داشت “ اور اس کی تشریح

کہتا تھا عزازیل ، خداوند جہاں سے 

پر کالہء آتش ہوئی آدم کی کف خاک

جاں لاغر و تن و فربہ و ملبوس بدن زیب

دل نزع کی حالت میں خرد پختہ و چالاک

 ناپاک جسے کہتی تھی ، مشرق کی شریعت

مغرب کے فقیہوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک

 تجھ کو نہیں معلوم کہ حوران بہشتی 

ویرانی جنت کے تصور سے ہیں غم ناک

جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست

 باقی نہیں اب میری ضرورت تہ افلاک

تشریح

کہتا تھا عزازیل ، خداوند جہاں سے

پر کالہء و آتش ہوئی ، آدم کی کف خاک

 اقبال کہتے ہیں کہ ابلیس نے خدا کے حضور میں عرض کیا کہ اے خالق عالم ، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا تھا اور آدم کو خاک سے ۔ وہ انسان جو مٹھی بھر خاک سے بنایا گیا تھا ۔ اب آتش کا پر کالہ بن گیا ہے ۔ جو بات میری سرشت میں تھی ، اب انسان کے خون میں سرایت کر گئی ہے ۔

جال لاغر و تن فربہ ، و ملبوس بدن زیب

 دل نزع کی حالت میں ، خرد پختہ و چالاک

اقبال کہتے ہیں کہ ابلیس خدا سے عرض کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے اللہ ، تو نے آدم کے بدن میں اپنی روح پھونکی تھی اور اسی روح کی یہ دولت ، اُس کو ساری مخلوقات میں ، اعلیٰ ترین مقام عطا ہوا تھا ۔ اب انسان کا یہ حال ہے کہ اس کی روح لاغر اور بے جان ہو چکی ہے ۔ مادی اعتبار سے وہ طاقت ور ہو گیا اور اس کی ظاہری حالت ، بڑی خوش نما ہے ۔ لیکن اس کی روح دم توڑ رہی ہے ۔ یعنی روحانی اور اخلاقی قدریں ، تقریباً ختم ہو گئی ہیں ۔ اگرچہ ، چالاکی ، ہوشیاری اور مکاری کے گرُ ،اُس نے خوب سیکھ لیے ہیں ۔

ناپاک جسے کہتی تھی ، مشرق کی شریعت

 مغرب کے فقہیوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک

 ابلیس خدا کی جناب میں عرض کرتا ہے کہ مشرق کے پیغمبروں اور حکیموں نے روحانی اقدار کے لیے زندگی وقف کرنے کی تعلیم دی تھی ۔ صداقت ، نیکی اور انصاف کی حمایت کے لیے سینہ سپر ہو جانے کا درس دیا تھا اور ایسا نہ کرنے والے کو وحشی اور کافر قرار دیا تھا ۔ لیکن اب مغرب کے سیاسی مفکروں نے یہ فیصلہ صادر کیا ہے کہ قوت اور طاقت حاصل کرنے کے لیے سب کچھ جائز ہے ۔ کم زور پر ظلم جائز ہے ۔ مظلوم انسانوں کا خون چوسنا جائز ہے ۔ کم زور انسانوں کا قتل و خون جائز ہے اور طاقتور بننے کا یہی گرُ ہے ۔

تجھ کو نہیں معلوم کہ حوران بہشتی

 ویرانی جنت کے تصور سے ہیں غم ناک

 اقبال کہتے ہیں کہ ابلیس ، خدا سے عرض کرتا ہے کہ اے خدایا ، جنت کی حوریں اس غم میں مبتلا ہیں کہ اب بہشت کا کیا ہوگا ، بہشت ویران ہو جائے گی ۔ یہاں بہت کم لوگ داخل ہو سکیں گے ۔

جمہور کے ابلیس ہیں ، ارباب سیاست 

باقی نہیں اب میری ضرورت ، تہ افلاک 

دنیا میں شر و فساد پھیلانا ، طاقتور کو کمزوروں کے قتل و خون پر اکساتا ، یہ مہم اب تک میں تنہا چلایا کرتا تھا ۔ لیکن اب سیاست داں خود بڑے پیمانے پر عوام کو یہی درس دے رہے ہیں اور وہ مجھ سے زیادہ کامیاب ثابت ہورہے ہیں ۔ اقبال کہتے ہیں کہ اس لیے ابلیس خدا سے گذارش کرتا ہے کہ اے خدا ، اب یہاں میری ضرورت باقی نہیں رہی میں بے کار ہو گیا ہوں ۔ میرے حال پر رحم فرما اور مجھے پھر ایک بار آسمانوں میں بُلائے ۔

No comments:

Post a Comment