ایک آرزو تنقید تبصرہ اور جائزہ
Ak Arizoo Nazam
علامہ اقبال نے اس نظم میں ایک آرزو کا ذکر کیا ہے۔ اُن کی یہ آرزو اُن کے ابتدائی دور کے کلام کی خصوصیات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ اقبال جو کچھ محسوس کرتے سوچتے اور چاہتے ہیں اس کو خلوص کے ساتھ اپنے کلام میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے احساسات اور خیالات الفاظ کا جامہ پہن کر اس طرح نمودار ہوتے ہیں کہ جذبہ اور خلوص کی بے پناہ شدت اُن کے اشعار کو تاثیر سے مملو کرتی ہے۔ اقبال قوم کے درد مند تھے اور اُن کے دل میں قومی جذبہ کار فرما تھا ۔ وہ اپنے ملک اور قوم کی ناکامیوں کا علاج دریافت کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لیے اُن کے دل میں ایک بے چینی ہے جس نے اُن کے درد مند دل کو پریشان کر رکھا ہے اور یہی پریشانی شاعر کو زندگی کے ہنگاموں سے بھاگ جانے کے لیے مجبور کرتی ہے اور وہ پکار اُٹھتا ہے ۔
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
چنانچہ وہ اپنے لیے ایک ایسی جگہ پسند کرتا ہے جہاں کوہساروں کا دلفریب نظارہ ہو ندی کا صاف پانی ہو سبزه تازہ اُگا ہوا ہو۔ پھولوں کی کثرت ہو۔ بلبل چہک کر آزادی محسوس کرتا ہو ۔ چڑیوں کے چہچہاہٹ ہوں ۔ کتنا دل کش اور سہانا منظر ہے جی چاہتا ہے کہ ہم بھی شاعر کی طرح ایک ایسی ہی دنیا بسا لیں۔ لیکن اقبال کا درد مند دل اسے کہاں چین لینے دیتا ہے۔ اس دنیا کے شور اور ہنگاموں سے دور رہ کر حُب وطن اور خدمت انسانی کا جذبہ ٹھنڈا نہیں پڑتا اور وہ کسی تھکے ہوئے مسافر کی اُمید کا آخری سہارا بن جاتے ہیں ۔
راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
اُمید اُن کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو
بجلی چمک کے اُن کٹیا مری دکھا دے
جب آسمان پر ہر سو بادل گھرا ہوا ہو۔
اس نظم میں اگر یہ اشعار موجود نہ ہوتے تو اعتراض پیدا ہو سکتا تھا کہ اقبال جو ہر وقت اہل وطن کا ہمدرد ہوتا ہے۔ اس نظم میں اپنی ایک الگ دنیا بسانے بیٹھتا ہے۔ جہاں کسی اور کا گذر ممکن نہیں۔ لیکن یہاں بھی اقبال کے دل میں کسی بھولے بھٹکے مسافر کی خدمت کا جذبہ کار فرما ہے۔ یہی نہیں بلکہ انسانوں سے دور رہ کر بھی اس کا احساس دل اپنے ہم وطنوں کی غفلت پر بیتاب ہے اور اپنے دلگداز نالوں سے اُنھیں خواب غفلت سے بیدار کرنا چاہتا ہے
اس خاموشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
ہر دردمند دل کو رونا مرا رلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انھیں جگا دے
کون ہے جو نظم کے اس آخری شعر میں شاعر کے دلی کی کسک کو محسوس نہ کرے۔ اور درد و غم کے تاریک بادلوں کو جو اہل وطن کی بے ہوشی اور بے عملی کی وجہ سے ان کے دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں۔ نہ دیکھ سکے ۔ وطن اور اہل وطن سے بے پناہ محبت ان اشعار سے ظاہر ہے۔ اس زمانے میں دوسرے شعرا رسمی طور پر وطن کی محبت کے گیت گا رہے تھے اور سوائے چکبست کے کسی شاعر نے بھی شدت جذبہ سے مغلوب ہو کر حب وطن کی نظمیں نہیں لکھیں ۔ لیکن چکبست بھی ہندوؤں کے ماضی میں گم ہو جاتے ہیں ان کا تخاطب صرف ہندو قوم سے ہے اور وہ ہندووں ہی کی مذہبی روایات کے ترانے گاتے ہیں اور ان میں وطن کی محبت کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ برخلاف اس کے اقبال کا تخاطب کسی خاص فرقے یا قوم سے نہیں ان کی نظمیں ہر ایک کو متاثر کرتی ہیں چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان سکھ ہو ! عیسائی۔ اقبال جو کچھ بیان کرتے ہیں اُن کا گہرا تا ثر لیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں بے پناہ تاثیر ہوتی ہے ۔ اس نظم میں وہ دیر و حرم دونوں کا احسان اُٹھانے سے انکار کرتے ہیں اور اُن کی جدت پسند طبیعت اپنے لیے ایک مخصوص راستہ تلاش کر لیتی ہے
کانوں پر ہو نہ میرے دیر و حرم کا احسان
روزن ہی بجھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو
پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو، نالہ میری دعا ہو
یہ رونا اور آہ وزاری کس لیے ہے۔ ہم وطنوں کے لیے جو خواب غفلت میں بے ہوش پڑے ہیں۔ اور شاعر انھیں اپنے نالہ و بکا سے ہوشیار کرنا چاہتا ہے اس میں ہندو یا مسلمان یا عیسائی کی کوئی پابندی لیکن ۔ مناظر قدرت میں علامہ کو پانی کی روانی سے خاص الفت ہے زیر مطالعہ نظم میں بھی اقبال نے مناظر فطرت سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا ہے۔ وہ اس دنیا کی شورشوں اور سازشوں سے الگ کہیں اپنا مسکن بنانا چاہتے اور اُنھیں قدرت کے حسین اور دلفریب نظاروں سے بے پناہ محبت ہے۔ اسی لیے وہ ایک ایسی وادی میں رہنا پسند کرتے ہیں جہاں
لذت سرور کی ہو چڑیوں کے چہچہے میں
چشمے کی شورشوں میں با جاسا بج رہا ہو
گل کی کلی چنگ کر پیغام دے کسی کا
ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو
ہو ہاتھ کا سرہانا سیزہ کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت خلوت میں ادا ہو
صف باند ھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
درختوں، پھولوں کا اور سبزہ کا ذکر کرتے ہوے ندی کے صاف پانی کا ذکر شروع کرتے ہیں ۔
ہو دلفریب اب کہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہوں
آغوش میں زمیں کے سویا ہوا سبزہ ہو
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چک رہا ہو
پانی کو چھو رہی ہے جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
علامہ اقبال کو بہتے ہوئے پانی سے اتنی محبت اس لیے ہے ۔ کہ اس کی روزی عمل پہم کا سبق دیتی ہے۔ جو ان کے پیغام کا بہت بڑا حصہ ہے ۔ وہ خودی کے تصور کی ابتدائی شکل ہے۔ اس کے بعد کے شعر میں شام کے وقت کا منظر کس خوبی سے بیان کرتے ہیں
مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو
سیر خی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو
اس نظم میں حسین تشبیہوں اور دلکش استعاروں سے کام لیا گیا ہے ۔ مثلاً سورج کا شام کی دلہن کو مہندی لگانا گل کی ٹہنی کا جھک جھک کر پانی کو یوں چھونا جیسے کوئی آئینہ دیکھ رہا ہو۔ سبزے کا زمین کی آغوش میں ہونا۔ گل کی بھی چٹک کر پیغام رسانی کرنا وغیرہ نادر تشبیہات ہیں ۔ اقبال نے تشبیہات اور استعارات کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ وہ موقع اور محل کے مطابق ہوں۔ اور اتنے بعید از قیاس نہ ہوں کہ قاری اُن سے لطف اندوز نہ ہو سکے۔ وہ تو اپنے قرب و جوار کے حسین مناظر سے ہی تشبیہات حاصل کرلیتے ہیں۔ وہ دنیا کی محفلوں سے کنارہ کش ہو کر پہاڑوں کے دامن میں الگ تھلگ زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو کچھ تعجب سا ہوتا ہے، مگر یہ تعجب جلد ہی دور ہو جاتا ہے کیونکہ وہ یہاں بھی قوم کی بھلائی کے علم میں گھلے جارہے ہیں، ہر وقت لوگوں کو آرام پہنچائے اور راستہ دکھانے کا خیال ان پر مسلط رہتا ہے۔ وہ بھولے بھٹکے مسافروں کے لیے راستہ پھر دیا جلائے رکھیں گے۔ تاکہ ان کو راستہ تلاش کرنے میں آسانی ہو۔ اور یہ کٹیا ان کے لیے پناہ گاہ بن جائے ۔ کنج تنہائی میں بھی وہ اپنے درد ناک ناموں سے قوم کو جنگانا چاہتے ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ شروع میں ایسی جگہ رہنے کی تمنا ظاہر کرتے ہیں جو شورش سے دور ہو اور جہاں سکوت کی حکومت ہو۔ وہ خاموشی پر مرتے ہیں۔ مگر جس جگہ وہ رہنا مسکن چاہتے ہیں۔ جب اس کی منظر نگاری کرتے ہیں تو وہ خاموشی سے کوسوں دور دکھائی دیتی ہیں۔ وہاں چڑیوں کے چہچہاہٹ ہیں اور چشموں کی شورشوں میں با جاسا بیچ رہا ہے اور ظاہر ہے کہ اس شور میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی ہوگئی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ انسانوں کے ہنگاموں سےدور جانا چاہتے ہیں مگر جب وہ آخر میں کہتے ہیں کہ
اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
ہر در دمند کو رونا مرا رُلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید ابھی جگا دے
تو انسانوں کے وجود کا احساس بھی ہونے لگتا ہے۔ اقبال اس خواہش کے با وجود نہ تو انیا سے کنارہ کر سکتے ہیں اور نہ سکوت، سکون اور خاموشی کی دنیا میں رہ سکتے ہیں۔ آگے چل کر ان سے مزاج کی اسی خصوصیت نے ان کو شاعر انقلاب اور عملی پیغامبر بنا دیا تھا۔
No comments:
Post a Comment