میر باقر علی داستان گو
Mir Bakir Ali Dastango |
داستان گوئی کے آخری امام میر باقر علی۱۸۵۰ء میں دلی میں پیدا ہوئے ۔ اور ایک مدت تک دلی میں سکونت پزیر رہے۔ والد کا نام میر حسین علی تھا۔میر صاحب کے آباء و اجداد ایران سے ہندوستان تشریف لائے تھے ۔ لڑکپن میں ہی والد کے سایے سے محروم ہوگئے تھے اور اپنے نانا کے گھر آگئے انہوں نے ہی میر صاحب کی پرورش کی ۔ یہاں میر کاظم نے انہیں داستان گوئی کا فن سکھایا۔انہوں نے بڑھاپے میں نوجوان طلبہ کے ساتھ بیٹھ کر دلی طبیہ کالج میں علم حاصل کیا۔ آپ اپنے دور کے مشہور داستان گو تھے آپ فور دراز علاقوں میں داستان سنانے کے لیے جاتے تھے جب راجواڑے ختم ہوگے تو اپنے گھر میں ہی داستانیں سنانے لگے ۔اپکی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی صرف ایک صاحبزادی تھی۔ جو باقری بیگم کے نام سے مشہور تھی انہوں نے بھی دہلی طبیہ کالج سے تعلیم پائی تھی ۔ تقسم ہند کے بعد آپ کی بیٹی نے دلی سے ہجرت کی اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی اور یہاں ایک زنانہ ہسپتال بھی قائم کیا ۔ان کی وفات سنہ 1952 میں ہوئی۔ مرحومہ کی یادگار ان کے دو لڑکے سید رضی حسین اور سید شہنشاہ حسین تھے۔ اب خدا جانے ان کی اولاد کہاں ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ میر صاحب نے آخری برسوں میں بھوجلہ پہاڑی پر سکونت اختیار کی تھی ۔ آپ جسامت کے اعتبار سے نہایت دبلے پتلے تھے ۔۱۹۲۶ء میں وفات پائی۔
تصانیف:
خلیل خان فاختہ، بہادر شاہ کا مولا بخش ہاتھی، گاڑھے خان کا دکھڑا، گاڑھے خان نے ململ جان کو طلاق دے دی، اہل محلہ اور سنا اہل پڑوس، طلسم ہوش افزا، اڑاڑا دھوں، خاتم داستان، باتوں کی باتیں، کام کی باتیں ، کانا باتی، فقیر کی جھولی، استانی، آداب و اخلاق، آقا و نوکر، چوری و سینہ زوری، کون۔
No comments:
Post a Comment