سبق : نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی
خاکہ
خاکہ نثری ادب کی ایک دلکش صنف ہے۔ انگریزی ادب میں خاکے
کے لئے "اسکیچ " کا لفظ مروج ہے۔اس سے مرقع یا قلمی تصویر بھی کہتے ہیں
۔اس سے مرقع یا قلمی تصویر بھی کہتے ہیں .اس کا آرٹ غزل اور افسانے کے
آرٹ سے مشابہت رکھتا ہے افسانہ و غزل کی طرح یہاں بھی اشارے کنائے سے کام لیا جاتا
ہے کیونکہ اختصار اس کی بنیادی شرط ہے خاکے میں کسی شخصیت کے نقوش اس طرح ابھارے
جاتے ہیں کہ اس کی خوبیاں اور خامیاں اجاگر ہو جاتی ہے اور ایک جیتی جاگتی تصویر
قاری کے پیش نظر ہو جاتی ہے ایک چیز ایسی ہے جو اس کی دلکشی میں اضافہ کرتی ہے ہے
وہ یہ کہ جس کاخاکہ پیش کیا جا رہا ہے اس کی کمزوریاں قاری کے دل میں
اس کے لئے نفرت نہیں بلکہ ہمدردی پیدا کرے اور خاکہ پڑھ کر وہ بے ساختہ کہے کہ کاش
اس شخص میں یہ کمزوریاں بھی نہ ہوتیں۔
اس صنف کے ابتدائی نقوش اردو کے قدیم تذکروں میں ملتے ہیں
۔محمد حسین آزاد کی " آب حیات " میں خاکہ نگاری کے بعض عمدہ نمونے موجود
ہے۔ مگر باضابطہ اس صنف کا آغاز بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائی میں "
فرحت اللہ بیگ" کے ہاتھوں انکے خاکے "نذیر احمد کی کہانی کچھ انکی کچھ
میری زبانی"سے ہوا۔ سکے بعد "مولوی عبدالحق نے "چند ہمعصر "
لکھ کر اس صنف کو اصولی طور پر رواج دیا ۔اسکے علاوہ "رشید احمد صدیقی "
نے "گنج ہائے گراں مایہ "اور شاہد احمد دہلوی نے" دلی کی اہم
شخصیتیں لکھ کر خاکہ نگاری کو اردو ادب میں فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ۔
حالات
زندگی مرزا فرحت اللہ بیگ
حالات
زندگی: مرزا
فرحت اللہ بیگ 1883ء میں دہلی میں پیدا ہوئے ۔آپکے بزرگ بدخشاں سے ہجرت کرکے اکبر
شاہ ثانی کے دور میں دہلی آئے تھے اور بادشاہ نے انھیں گورنر جنرل کے دربار میں
مختار کل کا عہدہ دیا تھا ۔ آپ کے والد کا نام حشمت بیگ تھا ۔ ابتدائی تعلیم دہلی کے گورنمنٹ اسکول
میں حاصل کی اور بی اے کا امتحان اسٹیفن
کالج سے پاس کیا ۔ اسکے بعد حیدر آباد چلے
گئے اور محکمہ تعلیم میں ملازم ہوئے ۔ آپ عدلیہ میں بھی مختلف عہدوں پر فائز
رہے آخر میں اسٹنٹ ہوم سیکریٹری کے با عزت عہدے پر فائز ہوئے اور اسی عہدے سے
وظیفہ یاب ہوئے ۔ 1919ء میں پہلا مضمون لکھا جو آگرہ کے ایک جریدے
"افادہ" میں چھپا۔ انھوں نے افسانے، سفرنامے، تنقید، سوانح عمری،
معاشرتی اور اخلاقی موضوعات پر مضامین لکھے۔ ان
کے مضامین کے مجموعے (مضامین فرحت) کے نام سے چھپ چکے
ہیں۔ ان کی کئی تخلیقیں مثلا :میری داستان، دہلی کا
یادگار مشاعرہ، نذیر احمد کی کہانی کچھ ان
کی کچھ میری زبانی، پھول والوں کی سیر، نئی
اور پرانی تہذیب کی ٹکر اردو ادب میں
یادگار رہیں گی۔ نے 1947ءکو حیدر آباد میں انتقال کر گئے ۔
سوال1:
نذیر احمد کی شخصیت کے دلچسپ کو اپنے
الفاظ میں لکھئے ۔
ڈپٹی نذیر ایک مثالی
شخصیت تھی۔ ان کی پوری زندگی شاگردوں اور علمی کاموں کے لیے وقف تھی مرزا فرحت نے
اس خاکےمیں مولوی نذیر احمد کی شخصیت کے
تمام گوشے منور کردیئے ہیں۔ وہ بڑے صاف گو
تھے ،سچ کہنے میں بالکل جھجکتے نہیں تھے بلاتکلف اپنی خوبیاں
اور خامیاں خود بیان کرتے تھے۔
سوال2:
نذیر احمد نے بچپن کے کن واقعا ت کو لطف
لے کر بیان کیا ہے ۔بتائیے:
جواب: مولوی نذیر احمد نے
بچپن کے دو واقعات کو لطف لے کر بیان کیا ہے ۔ ایک وہ جب مولوی صاحب روٹی جمع کرنے کے لیے عبدالماجد
کے گھر جاتے تھے تو اس کی بیٹی اس سے کافی مقدار میں مصالحے پسواتی تھی، جب مولوی
صاحب کا ہاتھ تھک کر روک جاتا تھا تو یہ
لڑکی اس کی انگلیوں پر بٹا مارتی تھی یہ
لڑکی وہی تھی جو بعد میں مولوی صاحب کی زوجیت میں آگئی ۔ دوسراواقع دہلی کالج کا
ہے جب ایک دفعہ مولوی صدر الدین امتحان لینے کے لیے آئے تھے اور کافی بھیڑ لگی
ہوئی تھی نذیر احمد اپنے چھوٹے قد کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے امتحانی کمرے تک پہنچ گئے
۔ تھوڑی دیر مولوی صدرالدین کسی کام سے اٹھے اور چپراسیوں نے راستہ صاف کرنا شروع
کیا اس دھکا پیل میں مولوی صاحب فرش پر گر
پڑے بلاآخریہ حادثہ مولوی صاحب کو کالج میں داخلے کا سبب بنا۔
سوال3: نذیر
احمد کے ساتھ پڑھنے والوں میں کون کون شامل تھے؟
جواب: سرسید احمد خان،
ذکا اللہ ،اورپیارے لال
سوال4:نذیر
احمد نے آج کل کی تعلیم کی کون کون سی خامیاں بتائی ہیں
جواب:نذیر احمد نے آج کل
کی تعلیم کی بہت سی خامیاں بتائی ہیں وہ
لکھتے ہیں کہ آج کل پڑھاتے نہیں لادتے ہیں آج پڑھا کل بھولے آج کل ایک ہی کلاس میں بہت سارے مضامین پڑھائے جاتے ہیں جن کا بظاہر کوئی فائدہ نظر
نہیں آتا۔ ہمارے زمانے میں ایک ہی مضمون پڑھایا جاتا ہے مگر اس میں کامل کر دیا جاتا
تھا اور آج کل کے پڑھانے والے بھی تجربہ
کار نہیں ہیں بلکہ محض کانٹھ کے الو ہیں ۔
سوال 5: اس
سبق میں جہاں مزاحیہ انداز اختیار کیا گیا
ہے اس کی نشان دہی کیجئے ۔
جواب: اس سبق میں ایک مولوی نذیر احمد کا حلیہ بیان کرتے ہوئے مزاحیہ انداز اختیار کیا گیا مثلاً یہ کہ پیٹ اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ازار
بند باندھنے کی ضرورت ہی بلکہ تکلیف دہ سمجھا جاتا تھا ۔ دوسرا
مصالحے پسوانے والی لڑکی کے بارے میں جب مولوی نذیر احمد کہتے ہیں کہ تم
سمجھے بھی کہ یہ لڑکی کون تھی ،یہ لڑکی وہ تھی جو بعد میں ہماری بیگم صاحبہ ہوئیں
۔خدا غرق رحمت کرے جیسی بچپن میں شریر تھی ویسی ہی جوانی میں غریب ہو گئیں ۔
سوال نمبر6:
اس سبق کا خلاصہ تحریر کیجیے۔
جواب: یہ دلچسپ مزاحیہ خاکہ مولوی نذیر احمد کی شخصیت
کے بارے میں ہیں جو مرزا فرحت اللہ بیگ نے لکھا ہے ۔ اس خاکے میں فرحت اللہ بیگ
مولوی نذیر احمدکا حلیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مولوی صاحب کا قد اونچا ، ،
توند باہر نکلی ہوئی مگر بھاری بدن کی وجہ سے قد ٹھنگنا معلوم ہوتا تھا ۔ ان کے سر
پر بہت کم بال تھے ۔چھوٹی چھوٹی آنکھیں تھی جو اند دھنسی ہوئی تھیں ۔ دہانہ بڑا تھا اونچی آواز میں بولتے تھے ۔
ناک کسی قدر چھوٹی تھی اور نتھنے بھاری تھے ۔ داڑھی چھدری تھی ۔ فرحت اللہ بیگ مزید
لکھتے ہیں کہ مولوی صاحب نے بچپن میں
غریبی کے دن دیکھے تھے ۔ابتدائی تعلیم ایک مدرسے سے حاصل کی وہاں پر مولوی صاحب کو
پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھر گھر جا کرروٹیاں بھی جمع کرنی ہوتی تھی ۔مولوی صاحب جب
روٹیاں جمع کرنے کے لئے عبدالماجد کے گھر جاتے تھے تو ان کی بیٹی مولوی صاحب سے
مصالحہ پسواتی
تھی ۔ یہی لڑکی بعد میں مولوی صاحب کی بیوی بن گیئں ۔ مولوی نذیر احمد کو اتفاقاً مولوی صدر الدین کے کالج میں داخلہ مل گیا تو مولوی صاحب مدرسے کو چھوڑ کر کالج میں آگئے ۔ اس کالج میں سرسید ، منشی ذکا اللہ اور پیارے لال بھی زیر تعلیم تھے ۔مولوی نذیر احمد نے کئی تصنیفات
تحر یر فرمائی اور قرآن مجید کا ترجمہ بھی
کیا جس پر مولوی نذیر احمد کو کافی ناز تھا ۔
سوال7: اس
سبق میں جو محاورے استعمال ہوئے ہیں انہیں
تلاش کر کے ، لکھئے :
جواب :روٹیاں سمیٹنا، ہاتھوں
میں گھٹے پڑ جانا ، سارا دن صرف ہونا ، راستہ صاف کرنا ، کوچ کرنا ،باتیں بنانا،
کانٹھ کا الو، نقشہ آنکھوں کے سامنے آجانا
This is very best thanks for giving these notes
ReplyDeleteYour most welcome
ReplyDelete