غزلیات مع تشریح:-میر تقی میرؔ
غزل نمبر 1
1۔ ہمارے آگے تیرا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
تشریح:- میر تقی میر ؔ اس شعر میں اپنے محبوب سے مخاطب ہو
فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب جب کسی نے تمہارا نام میرے سامنے لیاتو میرے دل میں
شدید اضطراب پیدا ہوگیا، پھر بڑی مشکل سے
میں اپنے دل پر قابو پا سکا۔
2۔ وہ کج روش نہ
ملا راستی میں مجھ سے کبھو
نہ
سیدھے طرح سے اُن نے میرا سلام لیا
تشریح:- میر
تقی میر فرماتے ہیں کہ میرے محبوب نے مجھ سے احسن سلوک نہیں کیا بلکہ ہمیشہ مجھ پر
ظلم و ستم ہی کیا ۔یہاں تک کہ اگر کبھی راستے میں ملا تو میر ی سلام کا جوب بھی
نہیں دیا ،گویا اس نے کبھی بھی محبت اور
خلوص کا اظہار نہیں کیا ۔
3۔ میرے سلیقے سے
میری نبھی محبت میں
تمام عمر
میں ناکامیوں سے کام لیا
تشریح: میر
تقی میرؔ فرماتے ہیں کہ میں نے زندگی میں ہمیشہ نا کامیاں اور
افسردگی دیکھی ہے مگر اس کے باوجود محبت
کے رشتے میں سلیقے سے کام لیا ۔محبوب نے جتنے بھی ظلم و ستم کئے میں نے انہیں
خاموشی سے برداشت کیا اور ان سے کوئی گلہ
نہیں کیا ۔
4 اگر چہ گوشہ
گزیں ہوں میں شاعروں میں میر ؔ
پر
میرے شعر نے روئے زمین تمام لیا
تشریح: میر
تقی میرؔ اس شعر میں صنعت تعلّی سے کام لے کر
فرماتے ہیں ۔اگر چہ میں بند کمرے
میں رہنے والا ایک معمولی انسان ہوں مگر میرے کلام میں اتنی خوبیاں ہے کہ سارےعالم
میں اسی کے چرچے ہیں ۔
غزل نمبر 2
1۔ ہگامہ گرم کن
جو دل نا صبور تھا
پیدا
ہر ایک نالے سے شور نشور تھا
تشریح: میر
تقی میرؔ اپنی فریاد اور آہ وزاری کی شدت کو قیامت کے شور سے تشبیہ دے کر فرماتے
ہیں کہ میرے دل میں برداشت کی قوت باقی
نہیں رہی ہے اب اس قدرفریاد اور آہ وزاری
کرتا ہے جیسے قیامت برپا ہوئی ہو۔
2۔ پہنچا جو آپکو
تو میں پہنچا خدا تئیں
معلوم
اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا
تشریح: میر
تقی میرؔ فرماتے ہیں کہ پہلے میں خود سے نا آشنا تھاا سلئے خدا سے دور اور نا آشنا تھا ۔اب چوکہ میں خود سے آشنا ہوا ہوں اسلئے خدا کے
بہت قریب آگیا ہوں ،گویا خدا کے قریب آنے کے لئے
خود سے آشنا ہونا ضروری ہے ۔
3۔ آتش بلند دل
کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
یک
شعلہ برق خرمن صد کوہِ طور تھا ۔
تشریح: میر
تقی میرؔ فرماتے ہیں کہ اے موسیٰؑ آپ کو
خدا کا جلوہ دیکھنے کا بڑا شوق تھا لیکن آپ اس کے ایک جلوہے کو برداشت نہیں کر
پائے اور بے ہوش ہو کر گر پڑے ،اگر آپکے اندر حقیقی محبوب کو دیکھنے کا شوق عشق کی
حد تک ہوتا تو آپ کے عشق کے جلوے کوہ طور کو ریزہ ریزہ کرتے ۔گویا حقیقی محبوب کا
دیدار کرنے کے انسان کو اپنے اندر عشق کی آگ کو تیز کرناپڑتا ہے ۔
4۔ کل پاوں ایک
کاسہ سر پہ جو آگیا
یکسر
استخواں شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا
دیکھ کر چل راہ بے خبر
میں
بھی کبھی کسی کا سر پُر غرور تھا
تشریح: میر
تقی میرؔاس قطعہ میں فرماتے ہیں کہ کل راہ چلتے چلتے میرا پاؤں اچانک ایک مرے ہوئے
انسان کی کھوپڑی پر پڑا تو اس میں زبان آگئی اور مجھ سے مخاطب کو کر کہنے لگی اے
مغرور انسان زرا دیکھ کے چل۔غرور کو چھوڑ اور ندامت کی راہ اپنا لے کیونکہ
میں بھی کسی گھمنڈی شخص کا سر تھا اور آج وہ سارا غرور خاک میں مل
چکا ہے اور لوگ مجھے روندھے جارہے ۔اس قطعہ میں شاعر دراصل یہ سمجھا نے کی
کوشش کرتا ہے کہ اس دنیا وی زندگی پر انسان کو غرور نہیں کرنا چا ہے کیونکہ یہ دائمی
زندگی نہیں بلکہ فانی ہے اور ایک نہ ایک
دن یہاں سے جانا ہے یہ دنیا کی شہرت ،عیش و عشرت ،کمایا ہوا معاش یہی پر چھوڑنا ہے
۔
5۔ تھا وہ تو رشک
حور بہشتی ہمیں میں میر ؔ
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور
تھا
تشریح: میر
تقی میرؔ اپنے محبوب کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرا مھبوب جنت کی حور کی
طرح خوبصورت ہیں ۔ایسا لگتا ہے جیسا اسکو بہشت سے
زمین پر لایا گیاہے لیکن پہلے میں یہ نہیں سمجھ نہیں پا یا تھا اب چونکہ وہ مجھ سے دور ہو چکا ہے اس لئے
اس کی خوبصورتی اور حسن کا احساس
ہوگیا ہے
ہستی اپنی خباب کی سی ہے
ReplyDeleteاس عہد میں الہی
ReplyDeleteتشریح
Deleteنقش فریادی ہے تشریح مع مماثل شعر
ReplyDelete