تازہ ترین

Saturday, March 20, 2021

گزرا ہوا زمانہ || سرسید احمد خان || سبق نمبر 1|| CLASS 12TH URDU NOTES

 سبق نمبر (1) گزرا ہوا زمانہ ۔ سرسید احمد خان

جماعت :بارویں

گزرا ہوا زمانہ

حالات زندگی سرسید احمد خان  یہاں کلک کریں

سوال نمبرا۔ سرسید احمد خان کی علمی اور اصلاحی خدمات کے بارے میں مضمون لکھے؟

جواب :۔ سرسید احمد خان انیسویں صدی کے ایک بہت بڑے رہنما ہوئے ہیں ہندوستانیوں اور خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی میں ان کی کوشش سے ایک الگ خوشگوار تبدیلی رونما ہوئی ۔ وہ قوم جوستی کاہلی اور بے علمی کی بیماری میں مبتلا ہو کر تباہی کے گڑھے میں جا گری تھی ۔ سرسید کے جگانے سے بھی ، ہوش میں آئی، جہدو جہد عمل پر کمر بستہ ہوئی اور ترقی کے راستے پر گامزن ہوگئی۔ سرسید نے قوم کے سامنے علی گڑھ کے کالج کا خواب پیش کیا اور قوم نے اس خواب کو پورا کرنے کے لئے سرسید کا ساتھ دیا ۔ قوم کے بہترین دماغوں اور قابل ترین فرزندوں ، نذیر احمد،حالی شبلی ، ز کا اللہ وغیرہ سب نے سرسید کی صداپرلبیک کہا اور قوم کے اندر ایک نئی زندگی پیدا کی۔انہوں نے اردو ادب کو ایک نیاراستہ دکھایا انہوں نے واضح کردیا کہ شعروادب نہ توربےکاروں کا مشغلہ ہے نہ تفریح و دل لگئی کا زریعہ ہے بلکہ یہ زندگی کو سنوارنے اور بہتر بنانے کا آلہ ہے۔ مراد یہ کہ انہوں نے ادب کی افادیت اور مقصدیت پر زور دیا ۔اردو نثر کے عیب انہوں نے گن گن کر جتائے مبالغہ آرائی تضع، اور قافیہ پیمائی اردو نثر کے وہ عیب تھے جن سے سرسید کو نفرت تھی۔ ان کی خوائش تھی کہ اردونثر میں وہ صلاحت پیدا ہو جائے کہ کام کی بات سیدھے سادے لفظوں میں ادا کی جا سکے تا کہ بات مصنف کے دل سے نکلے اور قاری کے دل میں بیٹھ جائے وہ خود ایک نثر نگار تھے انہوں نے ایسا کر کے دکھایا۔ ان کی رہنمائی اور تربیت سے بہت سے ایسے ادیب پیدا ہو گئے جو سرسیدکی طرح وضاحت صراحت اور قطعیت کے ساتھ اظہار خیال پر قدرت رکھتے تھے۔  

سوال نمبر2: "گزرا ہوازمانہ‘‘ پڑھ کر بتائے کہ سرسیداحمد خان نے کیا پیغام دیا ہے۔ 

جواب :۔ سر سید احمد خان نے قوم کے نوجوانوں کوقوم کی بھلائی اور بہتری کے لئے کام کر نے کا پیغام دیا ہے تا کہ وہ اپنی زندگی کو بامقصد بناسکیں۔

سوال نمبر :بوڑھے نے اپنی گزری ہوئی زندگی کے مندرجہ ذیل ادوار کے بارے میں جو کچھ دیکھا اور یاد کیا ، وہ سب اپنے الفاظ میں تحریر کئے ؟ لڑکپن ۔ جوانی۔ ادھڑ پین 

جواب : لڑکیں ۔ جب اسے کسی طرح کا کوئی غم نہ تھا۔ گھر کے بھی لوگ اسے پیار کرتے تھے اور اسکول سے جلدی چھٹی ہونے پر خوشی ہوتی تھی ۔اسے ہم مکتب یاد آنے لگے جن کے بارے میں سوچ کر وہ اور زیادہ غمگین ہو جاتا ہے۔ 

جوانی ۔ اپنی جوانی کا زمانہ یاد کرتا ہے جب وہ بہت خوبصورت اور تندرست تھا نیکیوں کے طرف توجہ ہی نہیں دیتا تھا اور بڑھاپا کاکبهی   خیا ل بھی نہ کرتا تھا۔

 ادھڑ پن ۔ جوانی کے زمانے کے بعداسے ادھڑ پین یادآتا ہے جب اس نے تمام کام اور اعمال اپنے ذاتی غرض کے لئے کئے تھے بلکہ قوم کے بھلائی کے لئے کچھ نہ کیا تھا۔ 

سوال نمبر:سرسید نے علمی میدان میں کیا کارنامے انجام دئے؟ 

جواب :1857ء میں تہذیب اخلاق جاری کیا اس رسالے کا مقصد ۱۸۵۷ء کی تباہ حال قوم کوساری اخلاقی اور مذہبی نقط نظر سے دباره زندگی بخشنا تھا اسکے ساتھ اردو میں مضمون نگاری کے فروغ میں بھی ایک نمایا کردار ادا کیا۔مسلمانوں کو انگریزوں کے عتاب سے بچانے اور ان کے ذہن کو صاف کرنے کے لئے "سرشی بجنور‘‘اور’’ اسباب بغاوت ہند" جیسی کتابیں تصنیف کی ۔ اسکے علاوہ سرسید کا جو کارنامہ علمی میدان میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے وہ مدرستہ العلوم مسلمانان (ممڈن اینگور اورنٹل کا لج )ہے جو آج مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے

 س: علی گڈھ کالج کب قائم ہوا تھا۔۔

 جواب 1870ء

س: سرسید کا سن وفات ہے۔ 

جواب:- ۱۸۹۸ء 

س: ہچکی بندھ جاتا‘‘ سے مراد ہے۔ 

جواب:۔ رونے کی وجہ سے سانس رک کر نکلنا

 

No comments:

Post a Comment