پرتپال سنگھ بیتاب |
نہ دے پختہ عمارت اک کھنڈد
میں تو بے گھر ہوں مجھے کوئی گھر دے
تشریح: اس شعر میں پرتپال اوپر والے سے التجاء کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر میرے نصیب میں پختہ عمارت نہیں ہیں تو نہ سہی لیکن رہنے کے لئے مجھے اگر ٹوٹا ہو ا مکان بھی مل جاتا میں اس بھی راضی ہو جاتا۔
اگر ہوں راستے پر مطمئن کر
اگر بے سمت ہوں راہِ سفر دے
تشریح: پرتپال سنگھ فرماتے ہیں اے خدا اگر میں سیدھے راستے ہوں تو میرے دل کو اطمینان عطا کر اور اگر سیدھے راستےپر نہیں ہوں تو مجھے زندگی کا سفر طے کرنے کے لئے صحیح راستہ دکھا دے۔
نہ دے اونچائی میرے قد کو بے شک
میری ہر شاخ کو لیکن ثمر دے
تشریح : اس شعر میں پرتپال سنگھ فرماتے ہیں کہ میں اپنی شہرت اور مقبولیت نہیں چاہتا ہوں ،میری تمنا صرف یہ ہے کہ میری ذات سے دوسروں کو فیض پہنچے ۔
مجھے پتھر ہی پتھر دے دیے ہیں
اب ان ہاتھوں کو آزر کا ہنر دے
تشریح : اس شعر میں پرتپال سنگھ بیتاب اپنے محبوب حقیقی سے مخاطب ہوکرفرماتے ہیں کہ میرے مقدر میں تو پتھر ہی پتھر لکھ دیے ہیں،اب اگر پتھر ہی میرے نصیب میں ہیں تو اب مجھےآزر کی طرح سنگ تراشی کا ہنر بھی عطا فرما تاکہ میں اپنے مقدر میں آئے ان پتھروں کو ہی تراش کر کوئی کار ہائے نمایا ں انجام دے سکوں ۔
نظر ہیں منتظر نس نس ہے بیتابؔ
صدف مجھ کو کیا ہے تو گہر دے
تشریح : بیتابؔ اس شعر میں فرماتے ہیں مجھے اگر سیپ کی سی خوبیاں دی ہیں تو میرے دامن کو موتیوں سے بھی بھر دے اس منظر کو دیکھنے کے لئے میری نظر منتظر ہے اور نس نس بیتاب ہے ۔
غزل نمبر 2
ریت ہے بیکرانی ہے
اور صحرا کی کیا کہانی ہے
تشریح : اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ یہ دنیا صحرا کی طرح ویران ہے ۔ مجھے دور دور تک کوئی ہمدم اس ویران دنیا میں نظر نہیں آتا ہے ۔
کھول کر دیکھ در مکانوں کے
لا مکانی ہی لا مکانی ہے
تشریح : اس شعر میں بیتابؔ فرماتے ہیں کہ باہر سے مکانوں کی اصلیت کا اندازہ نہیں ہو سکتا ۔ان کی اصلیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان ان مکانوں کے در وازے کھول کر دیکھتا ہے کہ ان میں سکون کی کوئی علامت ہی نہیں ہے گویا یہ جو مکان دکھائی دے رہے یہ صرف مکان ہے گھر نہیں۔
راستہ کس سے مانگتے ہو یہاں
بیھڑ نے کس کی بات مانی ہے
اس شعر میں بیتابؔ اپنے آپ سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ اے بیتاب اس مصروف دنیا میں آک کس سے راستے کا پتہ پوچھتے ہو اس دنیا میں ہر کوئی اپنی دھن میں مگن ہے اور دوسروں کی بات سنے بغیر بے نام منزلوں کی طرف رواں دواں ہیں ۔
اپنے قدموں کے نقش غائب ہیں
بے نشانی سی بے نشانی ہے
تشریح : اس شعر میں بیتاب ؔ فرماتے ہیں جو ہماری تہذیب اور ثقافت تھی وہ ہم نے آہستہ آہستہ ختم کر دی ہے اب اس کے نشان تک باقی نہیں ہیں ۔
ہمیں کچھ رک گئے سے ہیں بیتابؔ
ورنہ چاروں طرف روانی ہے
اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ دنیا رواں دواں ہیں صرف میں رُکا ہوا ہو کیونکہ مجھے مصیبتوں اور مشکلات نے روک کے رکھا ہے ۔
No comments:
Post a Comment