عابد مناوری حیات و خدمات
آپ کا اصل نام گوری نندن بالی اور
تخلص عابد ہے 1838 کو جموں میں پیدا ہوئے آپ کا آبائی گاؤں مناور ہے 1954 عیسوی میں
میٹرک کا امتحان پاس کیا مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالج میں داخلہ لیا لیکن تعلیم
مکمل نہ کرسکے 1956 میں محکمہ پنچایت میں ملازم ہو گئے 1964 میں اکاؤنٹ سے وابستہ ہوئیں
جس کے تحت حکومت میں بطور اکاؤنٹس آفیسر تعینات ہوئیں
آپ
کی پہلی غزل 1961 ء میں شائع ہوئی بہار غزل کے عنوان سے آپ کا پہلا غزلوں کا مجموعہ
1961ء میں شائع ہوا اس پر انہیں ریاستی کلچرل اکیڈمی کی طرف سے اعزاز سے نوازا گیا
عابد کا دوسرا مجموعہ شمیم گل کے نام سے 1967 کو شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ برجستہ
کے نام سے 1984 کو شائع ہوا عابد مناوری کی غزلوں کا ایک مجموعہ دیوناگری رسم الخط
میں رم جھم کے نام سے شائع ہوا اے جنت کشمیر کے نام سے 1908 عیسوی میں انہوں نے کشمیر
سے متعلق نظموں کا ایک مجموعہ ترتیب دیا
عابد مناوری
غزل نمبر 1
باطن کی آنکھ سے جو دیکھتا ہوں میں
لگتا ہے جیسے خود سے نا آنشنا ہوں میں
تشریح: اس شعر میں عابد مناوری فرماتے ہیں کہ جب میں اپنے ضمیر کی آنکھ سے خود کو دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ میں خود سے نا واقف ہوں اور خود کو جانتا ہی نہیں ہوں ۔
اس درد سے خالی ہاتھ ہی پلٹا ہے ہر کوئی
دست سوال لے کے کہاں آگیا ہوں میں
تشریح:اس شعر میں عابد مناوری فرماتے ہیں محبوب کا در ایک ایسا در ہے جہاں ہر خالی ہاتھ لوٹاہے۔ مگر یہ جاننے کے باوجو بھی میں اس کے در پر آیا اور خالی ہاتھ ہی لوٹا۔
مجھکو ہوا اُڑا کے جدھر چاہے لے چلے
پتا ہوں اور شاخ سے ٹوٹا ہوں میں
تشریح: اس شعر میں عابد مناوری فرماتے ہیں کہ میں اس پتے کی مانند ہوں جو شاخ سے ٹوٹا ہوا ہو ،اب دنیا کی ہوا جدھر چاہے مجھے اپنے ساتھ لے جا سکے گی ۔
مجھ سا بھی سادہ لوح زمانے میں ہے کوئی
اپنی تباہیوں پر بھی خوش ہوا ہوں میں
تشریح: عابد مناوری اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میں بھی کتنا سادہ ہوں کہ بار بار تباہ ہو رہا ہوں پھر بھی خوشیاں منا رہا ہوں گویا آدمی دنیا میں مصیبتیں اور مشکلات برداشت کرتا رہتا ہے پھر بھی خوش رہتا ہے۔
ہے ٹھیک ہے یا غلط ہے میرا انداز گفتگو
عابد جو کہتا تھا مجھے وہ کہہ گیا ہوں میں
تشریح:
عابد مناوری اس شعر میں فرماتے ہیں کہ عابد مجھے نہیں معلوم میرے شعر کہنے کا انداز
ٹھیک ہے یا غلط لیکن جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ میں نے کہہ دیا
غزل نمبر 2
میرے آنگن سے کبھی ہو کے نہ گزرا سورج
ر استہ اپنا کسی دن تو بدلتا سورج
تشریح: اس شعر میں عابد مناوری فرماتے ہیں کہ محبوب کے بغیر میری دنیا اندھیری ہو گئی ہے مگر مجھے یقین ہے کہ سورج جیسا میرا محبوب کبھی نہ کبھی راستہ بدل کر میرے آنگن سے سے گزرے گا اور میری دنیا روشن ہو جائے گی۔
دن جو نکلا بھی تو چھائے رہےغم کے بادل
دل کی نگری پہ کبھی کھل کے چمکا سورج
تشریح: عابد مناوری اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اگرچہ محبوب کی ملاقات نصیب ہوئی مگر اس ملاقات میں وہ محبت نصیب نہیں ہوئی جس کی تمّنا تھی اس طرح زندگی میں روشنی تو آئی مگر غم کے بادل چھائے رہے۔
قہقہہ زن ہے میری ہار پہ دشمن میرا
پردہ شب سے پھر ایک بار نکل آسورج
تشریح: اس شعر میں عابد مناوری فرماتے ہیں ہیں اے میرے سورج جیسے محبوب میں آپ کے عشق میں ہار گیا ہوں اب میرے دشمن میری ہار پر ہنسی اُڑا رہے ہیں ۔ اب رات کے پردے سے ایک بار نکل آ اور میری دنیا روشن کردے
اک طرف رات کے شیدا مہ و انجم کتنے
ایک طرف دن کا پرستار اکیلا سورج
تشریح:عابد مناوری اس شعر میں فرماتے ہیں اک طرف رات کے عاشق چاند اور کثیر تعداد میں تارے ہیں پھر بھی رات کی سیاہی کو نہیں مٹا سکتے دوسری طرف دن کا اکیلا عشق سورج دن کو روشن کر دیتا ہے گویابرائی کے بے شمار ساتھی ہو کر بھی اس کا اثر نہیں ہوتا جب کے اچھائی کے ساتھی بہت کم بھی ہو تو بھی وہ سورج کی طرح روشن اور غالب ہوتے ہیں۔
غیر ممکن ہے شب غم کی سحر ہے اے عابد
کس نے مغرب
سے نکلتے ہوئے دیکھا سورج
تشریح:
عابد مناوری فرماتے ہیں کہ اے عابد اس غم کی رات کا خاتمہ ناممکن ہے جس طرح مغرب کی
جانب سے سورج کا نکلنا ناممکن ہے۔
سوالات:
سوال
نمبر 1: شاعر اپنے آپ کو خود سے نا آشنا کب پاتا ہے ۔
جواب
: شاعر جب باطن کی آنکھ سے خود کو دیکھتا ہے تو اپنے آپ کو خود سے ناآشنا پاتا ہے
۔
سوال
نمبر 2: شاعر دست سوال لے کے کہاں جاتا ہے ؟
جواب:-
شاعر دست سوال لے کے محبوب کے در پر جاتا ہے۔
سوال
نمبر 3:- شاعر اپنی تباہیوں پر خوش کیوں ہوتا ہے ؟
جواب:-
شاعر سادہ لوح ہے اسلئے اپنی تباہیوں پر خوش ہوتا ہے ۔
سوال
نمبر 4: مہ و انجم کس کے شیدائی ہیں ۔
جواب:
مہ و انجم رات کے شیدائی ہیں ۔
No comments:
Post a Comment