غلام رسول نازکی
غلام رسول نازکی |
میر غلام رسول نازکی براوز بدھ ۱۶ مارچ ۱۹۱۰ ء( ۴ ربیع الاول۱۳۲۸) میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام غلام مصطفیٰ نازکی تھا ۔ انہوں نے ۱۹۱۱ ء میں سرینگر سے ہجرت کرکے بانڈی پور وٹلب میں مستقل سکونت اختیار کی ۔ غلام رسول نازکی نے اپنا بچپن وہی گزارا۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی جو عربی اور فارسی کے جید علم تھے ۔ جماعت ہشتم پاس کرنے کے بعد آپ مزید تعلیم کے لئے سرینگر آئے اور اسلامیہ ہائی اسکول سے مڈل پاس کیا ۔ اسکے بعد پنجاب یونیورسٹی سے منشی پاس کیا ۔ اسی اثنا میں آپ کے والد داعی اجل کو لبک کہہ گئے اور آپ باپ کی شفقت سے محروم ہوگئے۔ والد کے انتقال کے بعد آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اسلئے آپ کو ہندواڑہ میں بحیثیت مدرس ملازمت کرنی پڑی۔ دوران ملازمت انہوں نے منشی علم،میٹرک،منشی فاضل،ادیب فاضل اور ایف اے کے امتحانات پاس کئے ۱۹۴۳ء غلام السیدین نے نازکی صاحب کو اپنے ساتھ لٹریری اسٹنٹ بنا کر رکھا اور "تعلیم جدید" کا مدیر مقرر کیا ۔ اس رسالے سے وابستہ رہتے ہوئے نازکی صاحب نے ادبی حلقوں میں خاصی شہرت حاصل کی۔ اسکے بعد آپ کا تبادلہ بحیثیت استاد ٹیچرس ٹرینگ اسکول ہوا ۔ آپ اسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس بھی رہے۔ ۱۹۶۸ء میں نازکی صاحب ریدیو کشمیر جموں سے وابستہ ہوئے بعد میں ان کا تبادلہ ریڈیو کشمیر سرینگر ہوا یہی سے وہ ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ ۱۶ مارچ ۱۹۹۸ کو علم و ادب کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لئے غروب ہوا ۔
میر غلام رسول نازکی کو گھر میں ایک ادبی ماحول نصیب ہوا جس وجہ سے وہ ابتدا سے ہی ادب کی نزاکتوں اور نفاستوں سے روشناس تھے ۔ "آب حیات" کے مطالعہ نے انہیں شاعری کا گرویدہ بنایا۔انہوں نے غزل کے علاوہ رباعی ،قطعہ، نعت اور نظم، میں بھی طبع آزمائی کی ۔ اردو کے ساتھ ساتھ انہوں نے کشمیر زبان میں بھی شعر کہے۔
آپ کا پہلا شعری مجموعہ " نزاکت ۱۹۳۵" ہے۔اسکے علاوہ دیدہ تر ۱۹۴۹ء، چراغ راہ۱۹۸۹ء،متاع فقیرشائع ہو چکے ہیں جب کہ کشمیری میں نمرود نامہ۱۹۶۸،آواز دوست ۱۹۸۵ء کاوینہ وول۱۹۸۹ء منظر عام پر آکر قارئین اور ناقدین سے داد تحسین حا صل کر چکے ہے۔
No comments:
Post a Comment