عرش صہبائیؔ
آپ کا اصل نام ہنس راج ابرول اور تخلص عرش صہبائی ؔ ہے آپ اکھنور کےایک چھوٹے سے موضع سہری پلائی میں 4ستمبر 1930 ء کو پیدا ہوئے ۔ابتدئی تعلیم اپنے آبائی گاؤں میں حا صل کی میٹرک پاس کرنے کے بعد آپ نے اپنی مزید تعلیم جموں کے ایک کالج میں داخلہ لیا لیکن بعض وجوہات کی بنا پر اپنی تعلیم جاری نہ رہ سکیں اور ریڈیو کشمیر میں ملازمت اختیا کی اور وہی سے سبکدوش ہوئے آپ نے اپنی شاعری کا آغاز 1947-48 کے دوران شروع کیا۔ آپ اردو کے ایک مشہور شاعر ملسیانی ؔ کے شاگرد تھے اور طویل مدت تک آپ نے ان سے اصلاح لی ۔آپ نے اردو کی اکثر اصناف میں طبع آزمائی کی ۔مگر آپکی تخلیقات کا زیادہ تر حصہ غزلوں پر مشتمل ہے ۔آپ نے اپنی ادبی زندگی میں کئی یاد گار شعری مجموعے چھوڑے ہیں ۔جن میں شکست جام، شگفتہ گل، صلیب ، وغیر قابل ذکر ہیں ۔شگفتہ گل پرآپ کو ریاست کلچرل ایکادمی کے طرف سے 1941ء میں انعام بھی ملا ۔
آپ نے تذکرہ نگاری میں بھی یادگار تصانیف تحریر فرمائی ہیں جن میں انجم کدہ، یہ جانے پہچانے لوگ، اور مختلف اردو شعرا کے تذکرے شامل ہیں ۔ان تذکروں میں آپ نے اپنے مختلف ہم عمر شعرا کی حیات اور ادبی خدمات کا مختصراً ذکر کیا ہے ۔شاعری میں آپ کی زبان آسان اور دلچسپ ہونے کے ساتھ پُر اثر بھی ہے ۔ اپ نے ابتدا میں روایتی انداز اختیار کیا لیکن بعد میں عصر مسائل کا بھی احاطہ بھی کیا۔
عرش صہبائی غزلیات مع تشریح
1۔ کون سادہ زخم دل تھا جو تر و و تازہ نہ تھا
زندگی میں اتنے غم تھے جن کا اندازہ نہ تھا
تشریح:- عرش صہبائی اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میں نے زندگی میں بہت سارے غم اور دکھ دیکھے ہیں جن سے میرے دل پر نہ بھرنے والے گہرے زخم لگ چکے ہیں جو ابھی تک تر و تازہ ہیں ۔گویا یہ وہ شدید غم ہیں جو آج بھی میرے دل کو متاثر کر رہے ہیں
2۔ ہم تو نکل سکتے بھی توکیو ں کر حصار ذات سے
صرف دیوارین ہی دیواریں تھیں دروازہ نہ تھا
تشریح:- عرش صہبائی اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میں اپنی ذات کی چار دیواریوں میں قید ہوں جس اسیری سے نکل نے کے لئے مجھے کوئ در یا راستہ نظر نہیں آتا ہے ۔گویا میں اپنے آپ سے کھبی باہر آیا ہی نہیں کیوں کہ مجھے
ڈر تھا کہ کہی باہر دنیا کی برائیاں مجھے متاثر نہ کر پائیں ۔
3۔ اسکی آنکھوں میں نمایاں تھی محبت کی چمک
اس کے چہرے پر نئی تہذیب کا غازہ نہ تھا
تشریح:- عرش صہبائی اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میرا محبوب ابتدا میں مجھے سے پُر خلوص تھا وفاداری سے پیش آتا تھا مگر جوں جوں وقت گزر تا گیا اس نے بھی نئی تہذیب کا اثر قبول کیا اور مکر و فریب کرنے لگا ۔اب یہ حال ہوا ہے کہ اس میں وفاداری اور خلوص نام کی کوئی چیز رہی ہی نہیں۔
4۔ عرش ان کی جھیل سی آنکھوں کا اس میں کیا قصور
ڈوبنے والوں کو گہرائی کا اندازہ نہ تھا
تشریح:- عرش صہبائی اس شعر میں اپنے آپ سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ اے عرش ؔ تجھے اپنے محبوب کی آنکھوں کی گہرائی کا تصور نہ تھا اسلئے ان کی آنکھوں میں ڈوب گیا ،اس میں تیرے محبوب کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ یہ ایسا ہی جھیل ہیں جس میں ڈوب جانے کے بعد انسان کانکلنا نا ممکن ہوتا ہے۔
غزل نمر2
1۔ ہر ایک رنگ میں کاٹیں گے سزا ہی سہی
یہ زندگی کسی مفلس کی بد دعا ہی سہی
تشریح:- عرش صہبائی اس شعر میں زندگی کو مفلس کی بد دعا کہتے ہیں ،اور فرماتے ہیں کہ اس زندگی میں صرف تکالیف ہی تکلیف دیکھے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ میں زندگی نہیں گزار رہا ہوں بلکہ کوئی سزا کاٹ رہا ہوں جس سے نجات کا واحد زریعہ صرف موت ہی ہیں۔۔
2۔ نہ اس کو بھول کہ میں نے تجھے کیا تخلیق
یہ اور بات ہے تو وقت کا اخدا ہی سہی
تشریح:- عرش صہبائی اس شعر میں وقت کے حاکموں سے کہتے ہیں کہ تم اگر آج حکم چلا رہے ہو اور طاقت ور بنے بیٹھے ہو یہ سب ہماری برکت سے ہے اگر ہم نے آپ کو نہ بنایا ہوتا تو سوچو تمہارا کیا حال ہوتا ۔اسلئے اپنے طاقت کا بے دریغ استعمال مت کرو بلکہ انصاف سے کام لو ۔
3۔ یہی بہت ہے کہ مجھ پر تری توجہ ہے
تیری نگاہ کا انداز دوسرا ہی سہی
تشریح:- عرش صہبائی اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میرے لئے یہ بہت کچھ ہے کہ محبوب نے میری طرف نظر کی اور مجھے دیکھا ۔یہ اور بات ہے کہ انکی نظر محبت بری نہیں تھی بلکہ عداوت بھری تھی لیکن میں خوش ہوں کہ انہیں میں کسی نہ کسی صورت میں یاد ہوں ۔
4۔ وہ میری روح میں تحلیل ہو چکا ہے عرشؔ
اگر وہ مجھ سے جدا ہے چلو جدا ہی سہی
تشریح:- عرش صہبائی مقطع میں اپنے آپ سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ اگرچہ میرا محبوب دیکھنے میں مجھ سے دور ہے لیکن حقیقت میں وہ میرے وجود میں شامل ہے یعنی روح کی طرح وہ میر ی زندگی میں گھل مل چکا ہے۔
سوالات:
س1:۔ شاعر نے حصار ذات سے نکل نہ سکنے کی وجہ کیا بتائی ہے۔
ج:۔ شاعر نے حصار ذات سے نکل نہ سکنے کی یہ وجہ بتائی ہے کہ اس میں صرف دیواریں ہی دیواریں ہے باہر نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے ۔یعنی دنیا کے پلید ماحول کی وجہ سے شاعر نے خود کو اپنے آپ میں قید کررکھا ہے کیوں کہ اس سے ڈر ہے کہ کہی باہر نکلنے سے وہ بھی ان بری چیزوں کا شکار نہ ہو جائے ۔اور اس سے کوئی ایسی صورت نطر نہیں آتی جس سے دنیا ٹھیک ہو جائے اور وہ خو د کواپنے آپ سے آزاد کرے ۔
No comments:
Post a Comment