غزل
1۔ دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لو گا ہستی کی کیاہستی ہے
تشریح:- فانی اس شعر میں اپنی خود اری ظاہر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مجھے اس دنیا سے کوئی لینا دینا نہیں ہیں اس دنیا وی زندگی کی میرے سامنے کوئی وقعت نہیں ہے میں اس دنیا سے کوئی احسان نہیں لینا چاہتا ہوں مجھے یہاں اگر موت بھی مفت ملے میں وہ بھی مفت قبول نہیں کروں گا ۔
2۔ آبادی بھی دیکھی ہے ویرانی بھی دیکھی ہے
جو اجڑے پھر نہ بستے دل وہ نرالی دیکھی ہے
تشریح:- فانی اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میں نے کئی آباد بستیوں کو ویران ہو تے دیکھا ہے اور کئی ویران بستیوں کو آباد ہوتے دیکھا مگر دل کی بستی جیسی بستی نہیں دیکھی جو ویران ہونے بعد پھر دوبارہ نہیں بستی ہے گویا دل ایک نازک چیز ہوتا ہے جو ایک بار ٹوٹ جانے کے بعد پھر نہیں جڑپاتا ہے ۔
3۔ جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے
آگے مرضی گاہک کی ، ان داموں تو سستی ہے
تشریح:- فانی اس شعر میں فرماتے ہیں کہ محبوب کی ایک نظر کے بدلے عاشق اپنی جان اپنے محبوب پر نثار کر نے کو تیار ہوجاتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ محبوب بھی اسکے عشق کی وہی قدر کریں جو عاشق چاہتا ہو وہ تو اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے وہ جیسا چاہے ویسا کرسکتا ہے ۔
4 جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال رہا
جب بھی دنیا بستی تھی اب بھی دنیا بستی ہے
تشریح:- فانی اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب تمہاری جدائی میں میرا برا حال ہو چکا ہے۔میں اپنے لئے یہ دنیا تنگ محسوس کر رہا ہوں۔تمہاری جدائی میں رو رو کے میرا بُرا حال ہوچکا ہے لیکن باقی دنیا کو کیا ہے وہ تو چلتی ہے ویسے ہی جیسے پہلے چلتی تھی ۔تمہارے نہ ہونے سے انہیں کیا فرق پڑ سکتا ہے ۔
5 ۔ آنسو تھے خشک ہوئے جی اُمڈ آتا ہے
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہے
تشریح:- فانی اس شعر میں فرماتے ہیں کہ غموں او ر پریشانیوں نےمجھے بےحال کر دیاہے ان غموں کی وجہ سے آنکھوں سے اتنے آنسو بہائے ہے کہ اب آنکھوں میں آنسو بھی ختم ہو چکے ہے گویا نا امیدی اور اُداسیوں نے مجھےخاموش کر دیا ہے
6۔ دل کا اُجڑ سہل سہی ،کہنا سہل نہیں
بستی بسنا کھیل نہیں ہے بستے بستے بستی ہے
تشریح:- فانی اس شعر میں فرماتے ہیں کہ دل ایک ایسی چیز ہے یہ اگر اک بار اجڑ جائے پھر دبارہ اس کا آباد ہونا ممکن نہیں ہوتا ہے ۔یعنی اس کو آباد کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے ۔
7۔ فانی جس میں آنسو کیا دل کے لہو کا کال نہ تھا
ہائے وہ آنکھ اب پانی کے دو بوندوں کو ترستی ہے
تشریح:- فانی اس شعر میں فرماتے ہیں کہ پہلے میں بہت روتا تھا دل کا خون بھی آنسو کی شکل میں ٹپکتا تھا لیکن اس طویل مدت سے آنسوں بہانے سے میری آنکھیں خشک ہوگئ ہے اور اب میں آنکھوں سے ایک بوند ٹپکنےکے لئے ترستا ہوں ۔
No comments:
Post a Comment