مرزا غالب کی غزلیات کی تشریح |
غزلیات (غالب)
1۔ کوئی امید بھر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
تشریح :-غالب مطلع میں فرماتے ہیں کہ زندگی میں میری کوئی آرزو پوری نہیں ہوسکی ہمیشہ نا امیدی میں ہی زندگی گزاردی اور آگے بھی کوئی امید پوری ہونے کی صورت نظر نہیں آتی ۔
2- موت کا ایک دن معین ہیں
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
تشریح :- غالب اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اگر موت کا وقت مقر ر ہیں نہ یہ وقت سے پہلے آسکتی ہے اور نہ مقرر ہ وقت کے بعد ،مگر پھر بھی موت کا یہ ڈر مجھے کیوں رات بھر ستاتا ہے اور میری نیند کو بربار کرتا ہے
3- آگے آتی تھی حال دن پر ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
تشریح:- غالب اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میرے غموں نے میرا ایسا حال بنا رکھا تھا کہ مجھے اپنے اس بد حالی پر ہنسی آتی تھی مگر اب میرا حال یہ ہوا ہے کہ اب مجھے کسی بات پر ہنسی نہیں آتی گویا میں ہسنا ہی بھول گیا ہوں ۔
4۔ ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کا بات کر نہیں آتی
تشریح:- غالب اس شعر میں فرماتے ہیں کہ کوئی ایسی راز کی بات ہے جس کے فاش ہونے کے ڈرسے میں چپ ہوں کہ کہی میری باتوں سے مرے دل میں موجودراز کافاش نہ ہوجائے ورنہ میرے منھ میں بھی زبان ہے اور میں بھی بات کرنا جانتا ہوں ۔
5- مرتے ہیں مرنے کی آرزو میں
موت آتی ہے پر نہیں آتی
تشریح:- غالب اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میری غم زدہ زندگی نے مجھے بے سکون کر دیا ہے اور میں موت کی تمنا کرتا ہوں تاکہ مجھے اس غم زدہ زندگی سے نجات مل جائے مگر اب موت بھی مجھ سے روٹھ چکی ہیں اوروہ بھی نہیں آتی ہے
6۔ کعبہ کس منھ سے جاؤ گے غالب ؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
تشریح:- غالب اس شعر میں اپنے آپ سے مخاطب ہوکرفرماتے ہیں کہ اے غالبؔ تو نے زندگی بھر کوئی اچھا کام نہیں کیا بلکہ ہمیشہ بُرے کاموں میں ہی غرق رہا اب حج کرنے چلے ہو کس منھ سے اس پاک اور مقدس جگہ پرجاؤ گے تم کوشرم نہیں آتی۔
غزل نمبر 2
1۔ابن مریم ہوا کرئے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
تشریح :- ابن مریم حضرت عیسی ؑ کو اللہ نے معجزہ عطا کیا تھا کہ وہ مردوں کو زندہ اور بیماروں کو ٹھیک کرتے تھے ۔ اس حوالے سے شاعر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مسیحا مردوں کو زندہ اور بیماروں کو ٹھیک کرتا ہے تو ہوا کرے میں تب سمجھوں گا جب میرے تڑپتے ہوئے دل کا کوئی دوا کرے گا۔
2۔ بک رہا ہوں جنون میں کیا کیا
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
تشریح :-غالب کہتے ہیں کہ جنونی حالت میں کیا کیا کہہ گیا ہوں خدا کریں میری باتیں کسی کی سمجھ میں نہ آئیں ۔ یعنی میری گفتگو سے راز عشق فا ش نہ ہو جائے ۔
3۔نہ سنو گر بُرا کہے کوئی
نہ سنو گر بُرا کرے کوئے
تشریح : غالب اس شعر میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر کوئی بُرا کہے تو اسے مت سنو اور اگر کوئی تمہارے ساتھ بُرا برتاو کرئے تو اس سے معاف کرو اور ہر حال میں صبر سے کام کرو
4۔روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئے کوئی
تشریح : غالبؔ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اگر کوئی غلط چلے راستے پر چلے تو اسے روک لو اور اگر کسی کو کوئی غلطی ہو جائے تو اس سے معاف کریں۔
5۔کون ہیں جو نہیں ہیں حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی
تشریح: غالب اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر شخص حاجت مند ہے اس لئے تمہاری حاجت کوئی روا نہیں کر پائےگا۔اب اگر آپ کسی سے اپنی حاجت پوری ہونے کی توقع رکھتے ہیں تو فضول ہے۔
6۔ کیا کیا خضر نے اسکندر سے
اب کیسے رہنمائی کرئے کوئی
تشریح : اس شعر میں خضر اور اسکندر کے حوالے سے تلمیح کا استعمال کرتے ہوئے غالبؔ فرماتے ہیں کہ جب اسکند خضر کی رہنمائی کے با وجود آب حیات پی نہ سکا ،تو پھر کسی اور سے کیارہنمائی کی توقع رکھ سکتے ہے۔
7۔ جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
ؔ کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
تشریح :- غالب فرماتے ہیں کہ جب کسی سے کوئی توقع ہی نہیں رہی تو پھر کس بھروسے سے اس کا گلہ شکواہ کیاجائے ۔ گلہ وہاں کیا جاتا ہے جہاں اپنائیت ہو اور بات مان لئے جانے کی امید ہو ۔ ظاہر ہے جب توقعا ت ہی ختم ہو جائیں تو گلہ کرنے سے الٹا نفرت اور دشمنی ہی بڑھتی ہے ۔ اسلئے ایسے میں کوئی کیوں گلہ کرے
No comments:
Post a Comment