کلیم الدین احمد کی تنقید
ترقی پسند تحریک کے آغاز وارتقاء کے پہلو بہ پہلو کلیم الدین احمد کی تنقید کا سفر بھی جاری رہا جو اپنے انتہا پسندانہ اور غیر مشروط رویے کی بنا پر اپنے زمانے کی سب سے اکگ اور منفرد آواز تھی۔ کلیم الدین احمد نے ایف ۔ آر۔ لیوس کے سہ ماہی مجلہ Scrutiny(1932 ء تا 1953 ء) کے انتہا پسندانہ طریق کار کی پیروی کو اپنا شعار بنایا۔ ایف ۔ آر۔ لیوس نے اپنے دوران تعلیم آئی ۔ اے۔ رچرڈز کے عملی تنقید کے ان کورسز میں بھی شرکت کی تھی، جن میں سارا زور متن کے غایر مطالعے (Close reading) پرتھا۔کلیم الدین احمد نے نئی کیمبرج تنقید کے متشدداور سخت گیر رویے کواپنے لیے مثال بنا لیا۔ جس طرح ورجینا وولف ڈان تھامس اور بی گرین بعد ازاں ا سپنڈر اور آؤن اور پھر قدما میں سے اسپنر، ملٹن اور شبلی جیسے اہم رومانی شاعر کی بت شکنی کی گئی تھی اور اسے کیمبرج کے دانش ورانہ معیاروں کو برقرا رکھنے اور فروغ دینے کا نام دیا گیا تھا، کلیم الدین احمد نے بھی غزل اور بیش تر غزل گوشعرا اس کے بعد اردو تنقید کی تاریخ اور اقبال کو سخت تنقید کانشانہ بنایا۔ لیوس کا یہ خیال تھا کہ ماس میڈیا ( ذرائع ابلاغ عامل ) نئی تکنالوجی اور اشتہار بازی کا بے تحاشا فروغ انگریزی ادب کےتسلسل کے تئیں سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس لیے یونیورسٹیوں کے انگریزی ادب کے شعبوں کو تخلیقیت کے جوہر کو فروغ دینے کا کام کرنا چاہیے۔ لیوس نے بلومس بری گروہ کے فنون لطیفہ کے اشتیاق کو حقیر کے ساتھ چیدہ اتائی پن (Dilettant elitism) کا نام دیا تھا۔ اس کے برعکس ایک اعلیٰ درجہ کے تربیت یافتہ چیدہ دانش ورانہ مذاق کی اشاعت اس کے بہت سے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد تھا۔ اس معنی میں کلیم الدین احمد نے بھی نہ صرف یہ کہ ماضی کے ادبی سرمائے کی انتہا پسندی کے ساتھ قدرشناسی کی بلکہ کئی پرانے بھرم بھی توڑے کسی کی بت شکنی کی اور کسی کو بحال کیا ( جیسے داستان ) مگر مستقبل کے کسی نئے نمونے یا نئی مثالوں کا نقشہ نہیں پیش کیا۔ یہ ضرور ہے کہ ہمیں انفرادی شعر پر بے دردانہ قسم کی تنقید کو ان کا اہم کام نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان کا خاص مقصد اُردو اصناف اور ادب اور روایت کے مطالعے کے لیے ایک نئی سنجیدگی کی ضرورت کا احساس دلانا تھا اور کلیم الدین احمد اس مقصد میں یقینا کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ مغرب کی دانش یا تجربات سے ہمیں فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ خود مغرب نے عہد وسطی میں مشرقی بالخصوص عربی علم الافلاک کیمیا اور طب وغیرہ سے بھر پور فائدہ اٹھایا تھا۔ انہیں علوم کی بنیاد پر آگے چل کر نشاۃ الثانیہ کی تحریک نے جنم لیا۔ مدعا یہ کہ کلیم الدین احمد نے ایف۔ آر۔ لیوس کے انتہا پسندانہ طریق تنقید کا درس تو لیا لیکن لیوس کی کتابEnglish Literature and the University
کے تصور تہذیب کا کوئی اثر قبول نہیں کیا۔ اس کی ترجیح یونیورسٹیوں میں انگریزی ادب کے مطالعات کو ایک خاص مقام دلانے پر تھی کیوں کہ کسی دوسرے علم میں اتنی قوت اتنی ترغیب اور اتنی دل نشینی کے ساتھ تہذیبی اقدار کو پیش کرنے کی صلاحیت نہیں ہے جتنی کہ ادب میں ہے۔ تہذیبی قدریں روایت کے تصور کی بنیا دوں کو مستحکم کرتی ہیں جس کا اور اک ٹی ۔ ایس ۔ ایلیٹ کو بھی بخوبی تھا کلیم الدین احمد نے اپنے تخیل اور عمل کی بنیاد پر لیس اور ایلیٹ کی تہذیب روایت اور ادب کے باہمی خلاقانہ رشتوں پر غور نہیں کیا اور نہ اپنی روایات کے تسلسل کی روشنی میں اپنے ذوق میں لچک پیدا کرنے کی سعی کی۔ غزل، قصیدہ یا مرثیہ کی اضافی جمالیات اور ان کی تہذیبی معنویتوں اور مناسبتوں پر اگر وہ غور کرتے اور ہماری شعری لسانیات کے غیر معمولی ارتقا کے مختلف مراحل پر گہری نظر کی ہوتی تو یقینا انہیں کوتاہیوں کے پہلو بہ پہلو ان گراں قدر مثالوں سے بھی سابقہ پڑتا جن میں ذہن انسانی کو طمانیت بہم پہنچانے کی طاقت ہی نہیں ہے بلکہ وہ ہمارےشعور اور ہمارے جذبوں کو حرکت میں رکھنے کی زبر دست صلاحیت رکھتی ہیں اور جو بلاشبہ ہمارا ایک گراں قدر تہذیبی سرمایہ بھی ہیں۔