تازہ ترین

Friday, October 2, 2020

شہر یار || غزلیات کی تشریح || زخموں کو رفو کر لیں دل شاد کریں پھر سے || زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے

 غزلیات شہریار مع تشریح

زخموں کو رفو کر لیں دلشاد کریں پھر سے

خوابوں کی کوئی دنیا آباد کرے پھر سے

تشریح: شہریاراس  شعر میں فرماتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی کے سارے دکھ درد بھلا دیں گے اور خوابوں کی نئی دنیا سجا کرنیے طریقے سے زندگی گزاریں گے۔

2۔ مدت ہوئی جینے کا احساس نہیں ہوتا

دل ان سے تقاضا کر بیداد کرے پھر سے

شہریار اس شعر میں اپنے دل سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ مجھے ایک عرصے سے جینے کااحساس نہیں ہو رہا کیونکہ محبوب نے مجھ پر ظلم کرنا چھوڑ دیا ہے اب تو ہی محبوب سے فریاد کر کہ وہ پھر سے مجھ پر ظلم کرے تاکہ مجھے میری زندگی کا کھویا ہوا سرور واپس مل جائے اور میر ےاندر زندگی جینے کا احساس پھر سے پیدا ہو جائے۔

3۔ مجرم کے کٹہرے میں پھر ہم کو کھڑا کر دو

 ہور سم کہن تازہ فریاد کرے پھر سے

شہریار اس شعر میں فرماتے ہیں کہ پرانے زمانے کی رسم ہے کہ جرم کرنے والے کو عدالت میں کھڑا کیا جاتا ہے اور وہ اپنی فریاد سنایا کرتا تھا مدت سے آپ کا دیدار نصیب نہیں ہوا میں بھی عشق کا مجرم ہوں پرانے رسم کی طرح مجھ کو عشق کے کٹہرے میں کھڑا کر دیجئے تاکہ میں فریاد کر سکوں کیونکہ میری فریاد آپ تک نہیں پہنچتی ہے۔

4۔ اے اہل جنوں دیکھو زنجیر ہوئے سائے

 ہم کیسے ان کو سوچو آزاد کرے پھر سے

تشریح: شہریار اس شعر میں دیوانوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ اے ہمعصر دیوانوں آج ہم قید میں ہیں ہمیں ہر طرف زنجیروں سے باندھا گیا ہے اب تم یہ سوچو کہ ہم کیسے خود کو آزاد کرے۔

5۔ اب جی  کے بہلنے کی یے یہی صورت 

 بیتی ہوئی کچھ باتیں ہم یاد کریں پھر سے

تشریح: شہریار اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میرے سامنے اب اپنا دل بہلانے کا فقط ایک ہی طریقہ ہے کہ میں بیتے ہوئے دن اورخوشگوار واقعات کو یاد کرو صرف اسی صورت میں دل کو بہلایا جا سکتا ہے اس کے علاوہ دل بہانے کا کوئی سامان میرے پاس موجود نہیں ہے بلکہ اب جو بھی میسر ہے اسے دل دکھتا ہی ہے بہلتا نہیں۔

                                      غزل نمبر2

زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے 

 ہر گھڑی ہوتا ہے احساس کہیں کچھ کم ہے

تشریح: شہریار کو زندگی میں کسی چیز کی کمی کا احساس ہے اس لیے فرماتے ہیں کہ ہم نے زندگی سے جو امید باندھی تھی زندگی اس پر تو پوری نہیں اترتی اس میں کہیں کوئی کمی رہ گئی ہے جس کا احساس ہر لمحہ دل میں کھٹکتا رہتا ہے زندگی کی کسی محرومی کا احساس ہر گھڑی شاعر کو ستاتا رہتا ہے۔

گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہو سکتی ہے 

اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے

تشریح: شہر یاراس شعر میں فرماتے ہیں میں نے اپنے گھر کا جو نقشہ تیار کیا ہے اس کی تعمیر صرف خیالوں میں ہی ہو سکتی ہے حقیقت میں اس کی تعمیر ناممکن ہے کیونکہ یہ زمین اس نقشے کے مطابق کم ہے۔

بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی 

دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے

تشریح: شاعر اس شعر میں فرماتے ہیں کہ زندگی میں جو لوگ   بچھڑ چکے ہیں مجھے امید ہے کہ ان سے کھبی ملاقات ہوگی مگر پورا یقین نہیں ہے۔

اب جدھر دیکھے مجھے لگتا ہے کہ اس دنیا میں

کہیں کچھ زیادہ ہے کہیں کچھ کم ہے


تشریح:اس شعر میں شہریار خان فرماتے ہیں کہ میں جس طرف بھی دیکھتا ہوں مجھے سب چیزیں دکھائی دیتی ہے لیکن تناسب کی کمی محسوس ہوتی ہے کہیں پہ زیادہ نظر آتی ہے اور کہیں پہ بہت کم نظر آتی ہے۔

آج بھی ہے تیری دوری ہی اداسی کا سبب

یہ الگ بات کہ پہلی سی نہیں کچھ کم ہے

شہریار شعر میں فرماتے ہیں کہ آج بھی میری غمگینی کی وجہ محبوب سے دوری ہے یہ الگ بات ہے کہ اس میں اتنی شدّت نہیں رہی ہے جو پہلے پہل ہوا کرتی تھی۔

سوالات۔

س1۔ خوابوں کی دنیا آباد کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟

جواب:خوابوں کی دنیا آباد کرنے کے لیے ہمیں پرانے زخم بھرنے ہوں گے۔

س2: دل بہلانے کی کیا صورت ہے؟

ج: دل بہلانے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم گزری ہوئی باتوں کو پھر سے یاد کرلیں۔

س4۔غزل نمبر 2 کے آخری شعر کو پڑھ  کر بتائیں کہ شاعر کی اداسی کا سبب کیا ہے۔

ج: شاعر کی اداسی کا سبب محبوب کی جدائی اور دوری ہے ہے۔

©درج ذیل لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجئے آئے۔

احساس| مجھے آپ کی بے بسی کا احساس ہے

تصور| ہمیں تصور نہیں تھا کہ وہ پاس ہوگا

یقین| ہمیں یقین ہے کہ ہم آخرت میں ملیں گے

تقاضا |اسلم مجھ سے قرض کا تقاضا کر رہا تھا

مجرم |جرم کرنے والے کو مجرم کہتے ہیں

زنجیر| مجرم کو زنجیروں میں باندھ دیا گیا

















No comments:

Post a Comment