خاکہ
خاکہ نثری ادب کی ایک دلکش صنف ہے۔ انگریزی ادب میں خاکے کے لئے "اسکیچ " کا لفظ مروج ہے۔اس سے مرقع یا قلمی تصویر بھی کہتے ہیں ۔اس سے مرقع یا قلمی تصویر بھی کہتے ہیں
اس کا آرٹ غزل اور افسانے کے آرٹ سے مشابہت رکھتا ہے افسانہ و غزل کی طرح یہاں بھی اشارے کنائے سے کام لیا جاتا ہے کیونکہ اختصار اس کی بنیادی شرط ہے خاکے میں کسی شخصیت کے نقوش اس طرح ابھارے جاتے ہیں کہ اس کی خوبیاں اور خامیاں اجاگر ہو جاتی ہے اور ایک جیتی جاگتی تصویر قاری کے پیش نظر ہو جاتی ہے ایک چیز ایسی ہے جو اس کی دلکشی میں اضافہ کرتی ہے ہے وہ یہ کہ جس کاخاکہ پیش کیا جا رہا ہے اس کی کمزوریاں قاری کے دل میں اس کے لئے نفرت نہیں بلکہ ہمدردی پیدا کرے اور خاکہ پڑھ کر وہ بے ساختہ کہے کہ کاش اس شخص میں یہ کمزوریاں بھی نہ ہوتیں۔
اس صنف کے ابتدائی نقوش اردو کے قدیم تذکروں میں ملتے ہیں ۔محمد حسین آزاد کی " آب حیات " میں خاکہ نگاری کے بعض عمدہ نمونے موجود ہے۔ مگر باضابطہ اس صنف کا آغاز بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائی میں " فرحت اللہ بیگ" کے ہاتھوں انکے خاکے "نذیر احمد کی کہانی کچھ انکی کچھ میری زبانی"سے ہوا۔ سکے بعد "مولوی عبدالحق نے "چند ہمعصر " لکھ کر اس صنف کو اصولی طور پر رواج دیا ۔اسکے علاوہ "رشید احمد صدیقی " نے "گنج ہائے گراں مایہ "اور شاہد احمد دہلوی نے" دلی کی اہم شخصیتیں لکھ کر خاکہ نگاری کو اردو ادب میں فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ۔
No comments:
Post a Comment