تازہ ترین

Wednesday, April 3, 2019

افسانہ ۔ پاگل

افسانہ ۔ پاگل

 افسانہ نگار۔ سکندرعلی شکن 

 رابطہ نمبر۔9519902612 



 ابھی انس کالج سے گھر  آکے اپنا لباس تبدیل کر ہی رہا تھا  کہ چھٹکی ہانپتے ہوئے آکر بولی انس بھیا ! انس بھیا ! کیا ہے ؟ انس نے پوچھا بھیا باہر پاگل آیا ہے چلو چل کر دیکھتے ہیں۔ نہیں چھٹکی مجھے پریشان مت کر مجھے نہیں جانا ، نہیں بھیا چلیے! چھٹکی کے بار بار اصرار کرنے پر انس تیار ہو گیا باہر سڑک پر اس نے آ کر کچھ عجیب سا منظر دیکھا ایک آدمی میلے کچیلے خاتونی لباس زیب تن کیے ہوئے کھڑا تھا اس کے ہاتھ میں ایک ریڈیو تھا۔  پھٹے پرانے کپڑے اس کی روداد زندگی بیان کر رہے تھے کہ اسے اس زمانے نے کتنے ٹھوکر دیے ہیں مگر اس کے چہرے سے رنگ آفرینیت جھلک رہی تھی جس سے لگتا تھا جیسے اسے اپنے حالات کی کوئی پرواہ نہیں اس کی خوش کلامی سے یہ ظاہر ہو رہا تھا جیسے اسے کوئی غم نہ ہو پاگل کو دیکھ کر انس کو عجیب حیرت ہوئی انس نے اپنے دل ہی دل میں کہا یہ کیا ؟ کیا وہ اپنی پسند سے ایسا لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں یا کوئی مجبوری اسے ایسا لباس پہنانے پر مجبور کئے ہوئے ہے بچے اسے پاگل کہہ کہہ کر تنگ کررہے تھے بچوں کی کیا بات اسے جوان اور بوڑھے بھی طرح طرح کے نہ زیبہ باتوں سے پریشان کر رہے تھے کوئی اسے ادھر بلاتا تو کوئی ادھر  کوئی اسے خانہ کھلانے کی بات کہتا تو کوئی دکان پہ بسکٹ دلانے کی بات! مگر اسے کوئی بھی کچھ کھلاتا پلاتا نہیں !  یہ تو صرف کہنے کی بات تھی۔ پاگل کے پاس ایک پوٹلی تھی جس میں وہ پھٹے پرانے کپڑے و کترن رکھے ہوئے تھا پاگل پوٹلی نہ کھولنے کے لئے لوگوں سے دہائی کرتا مگر لوگ اس کی پوٹلی زبردستی کھول کھول کر  دیکھتے اور مسخرہ کرتے۔
  انس چپ چاپ کھڑا اس پاگل کا تماشائی بنا ہوا تھا کچھ دیر بعد اس نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا تم لوگ اس بے چارے کو کیوں پریشان کر رہے ہو جب کہ تمہیں معلوم ہے کہ اس کا دماغی توازن ٹھیک نہیں اگر اس کا دماغی توازن صحیح ہوتا تو یہ ایسا لباس زیب تن کیے بدحالی کی حالت میں کبھی نہ گھومتا تم لوگوں کو اس کی مجبوریوں کو سمجھنا چاہیے یہ مت بھولو کی ایسا تمہارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے انس کی باتیں سن کر  کچھ لوگ تو خاموش ہوگئے مگر کچھ لوگ اب بھی اپنی عادت سے باز نہیں آئے ۔جھٹکی پاگل کو بار بار دیکھ رہی تھی اور پاگل بھی چھٹکی کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ چھٹکی سے کچھ کھانے پینے کی چیز کا مطالبہ کر رہا ہو چھٹکی نے احساس کیا کہ پاگل کو زورو کی بھوک لگی ہے اس لئے وہ دوڑتی ہوئی گھر گئی اور کچھ ہی لمحے میں دو روٹیوں کے ساتھ وارد ہوکر انس سے بولی بھیا ! روٹی اسے دے دوں۔  دے دے چھٹکی! انس نے کہا ۔ چھٹکی نے پاگل کو روٹی دے دی پاگل دونوں ہاتھوں سے روٹی کھانے لگا چھٹکی پاگل کو دیکھ  رہی تھی اور پاگل بھی چھٹکی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ابھی پاگل روٹی کھا ہی رہا تھا کہ اتنے میں سدن کا کا بھی آگئے انس نے سدن کاکا سے پاگل کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہا تو سدن کاکا پاگل کے بارے میں یوں بتانے لگے بیٹا ! میں اسے جانتا ہوں یہ پاس والے گاؤں میں رہتا ہے بیٹا یہ بھی تمہاری طرح پڑھنے میں کافی تیز تھا اس نے ہمیشہ کالج میں ٹاپ کیا پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اس کی شادی ہو گئی اور یہ ہنسی خوشی اپنی زندگی گزارنے لگا اس کے گھر میں ایک  نل تھا جس میں کبھی کبھی کرنٹ اتر آتا تھا یہ بات اس کے گھر والے جانتے تھے اور صحیح کروانے کی بات کرتے رہتے تھے لیکن وقت نہیں مل پاتا تھا  ایک دن جب یہ نہا رہا تھا تو اس نے اپنے بھیگے ہاتھ نل پر رکھےکہ کرنٹ نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا اس نے چلانے کی لاکھ  کوشش کی مگر  آواز نہ نکل سکی  بہتیرا ہاتھ پیر مارا مگر کرنٹ سے آزاد نہ ہوسکا بھلا اہل خانہ کو کیا خبر  کہ اسے کرنٹ نے اپنے زد میں لے لیا ہے اتفاق سے کچھ لمحے بعد لائٹ چلی گئی تو یہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا اہل خانہ نے دوڑ کر اسے اٹھایا اور ہسپتال لے گئے اسے وہاں ہوش تو آ گیا مگر  دماغی توازن جاتا رہا تب سے یہ بے خود ہوکر بھٹکنے لگا اس کے اہل خانہ نے  اسے گھر لے جانے کی بہت کوشش کی مگر سب بے کار یہ گھر پر نہ رکا اور یوں ہی در در کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہے انس سدن کا کا کی باتیں سن کر بہت غمگین ہو گیا اس کا دل دکھ سے بھر گیا  اتنے میں پاگل کی روٹی بھی ختم ہو گئی تو اس نے  ریڈیو آن کرکے ایریل کھینچ دیا ریڈیو سنسنانے لگا پاگل ریڈیو کی سنسناہٹ آواز کو بڑے توجہ کے ساتھ سماعت کرتے ہوئے چل دیا گویا وہ ریڈیو کی سنسناہٹ کو مدھر موسیقی تسلیم کرتا ہو۔ لوگ اس کے  اس پاگل پن کو دیکھ کر ہنس رہے تھے مگر انس کافی سنجیدہ ہو کر پاگل کو جاتا دیکھ رہا تھا-

------------------------------------------------------------------

اس سائیٹ پر شائع شدہ مواد سے ہمارا متفق ہونا لازمی نہیں (طاہر اردو اکیڈیمی)

No comments:

Post a Comment