*نظم : خدا کا سوال*
*شاعر: ابرار کاشف*
مرے رب کی مجھ پر عنایت ہوئی
کہوں بھی تو کیسے عبادت ہوئی
حقیقت ہوئی جیسے مجھ پر عیاں
قلم بن گیا ہے خدا کی زبان
مخاطب ہے بندے سے پروردگار
تو حسنِ چمن تو ہی رنگِ بہار
تو معراجِ فن تو ہی فن کا سنگار
مصور ہوں میں تو مرا شاہکار
یہ صبحیں یہ شامیں یہ دن اور رات
یہ رنگین دلکش حسیں کائنات
کہ حور و ملائک و جنات میں
کیا ہے تجھے اشرف المخلوقات
میری عظمتوں کا حوالہ ہے تو
تو ہی روشنی ہے اجالا ہے تو
فرشتوں سے سجدا بھی کروادیا
کہ تیرے لیے میں نے کیا نہ کیا
یہ دنیا جہاں بزم آرائیاں
یہ محفل یہ میلے یہ تنہایاں
فلک کا تجھے شامیانہ دیا
زمین پر تجھے آب و دانہ دیا
ملے آبشاروں سے بھی حوصلے
پہاڑوں میں تجھ کو دیئے راستے
یہ پانی ہوا اور یہ شمس و قمر
یہ موجِ رواں یہ کنارا بھنور
یہ شاخوں پہ غنچے چٹکتے ہوئے
فلک پہ ستارے چمکتے ہوئے
یہ سبزے یہ پھولوں بھری کیاریاں
یہ پنچھی یہ اُڑتی ہوئی تتلیاں
یہ شعلہ یہ شبنم یہ مٹی یہ سنگ
یہ جرنوں کے بجھتے ہوئے جلترنگ
یہ جھیلوں میں ہنستے ہوئے سے کنول
یہ دھرتی پہ موسم کی لکھی غزل
یہ سردی یہ گرمی یہ بارش یہ دھوپ
یہ چہرا یہ قد اور یہ رنگ و روپ
درندوں چرندوں پہ قابو دیا
تجھے بھائی دے کر کے بازوں دیا
بہن دی تجھے اور شریکِ سفر
یہ رشتے یہ ناتے گھرانہ یہ گھر
کہ اولاد بھی دی دیئے والدین
الف لام میم ق اور عین غین
یہ عقل و ذہانت شعور و نظر
یہ بستی یہ صحرا یہ خشکی یہ تر
اور اس پر کتابِ ہدایت بھی دی
نبی بھی اُتارے شریعت بھی دی
غرض یہ سبھی کچھ ہے تیرے لیے
بتا کیا کیا تو نے میرے لیے؟